ایران اور یورپی ممالک کے سربراہان نے ایران کے جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں اٹھانے کے لیے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ملاقات کی۔
یہ ملاقات نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے دو ہفتے قبل ہوئی۔ دو مہینوں میں یہ بات چیت کا دوسرا دور تھا۔ پہلی ملاقات پچھلے سال نومبر میں جنیوا میں ایران اور تین یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی (ای تھری) کے رہنماوٴں کے درمیان ہوئی تھی۔
پچھلے روز ہونے والی ملاقات کو خفیہ رکھا گیا تھا، ملاقات میں کیا بات ہوئی اس کے بارے میں بہت کم معلومات شیئر کی گئیں۔
ایران کی نیوز ایجنسی اسنا کے مطابق ’ایران کے نائب وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی اور ای تھری کے رہنماوٴں نے پیر کی شام کو ملاقات کی۔‘
بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’ملاقات میں ایران پر سے پابندیاں ہٹانے، جوہری مسئلہ اور خطے کی تشویشناک صورتحال سمیت دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘
بعد ازاں ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے بین الاقوامی امور کاظم غریب آبادی نے ملاقات کو ’سنجیدہ، بہتری کی طرف پیش قدمی‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں اور کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے تمام فریقوں کو مناسب ماحول برقرار رکھنا چاہیے۔ ہم نے اپنی بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔‘
ملاقات سے قبل جرمن وزارت خارجہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ بات چیت ’مذاکرات نہیں‘ تھے جبکہ ایران نے بھی اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف ’مشاورت‘ کررہے تھے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’اس بات چیت کا بنیادی مقصد ایران پر سے پابندیاں ہٹانا ہے، ایران بھی دوسرے فریق کے مسائل کو سن رہا ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو فرانس کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ اس بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای تھری ممالک ابھی تک ایران کے جوہری پروگرام کے سفارتی حل پر کام کر رہے ہیں، جسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ یہ بات چیت اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کے 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد یورپی ممالک کی توجہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہے۔
اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے باہر نکال دیا تھا اور ایران جوہری پروگرام پر دوبارہ پابندیاں لگا کر دباؤ بڑھا دیا تھا۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے پاس سب سے بڑا بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں صرف چند ہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود بیلسٹک ٹیکنالوجی کی مدد سے بیلسٹک میزائل بنا سکیں۔ ایران نے پچھلے دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اور بیلسٹک میزائل تیار بھی کیے۔