غزہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل ویسٹ بینک میں فوجی آپریشن کیوں شروع کررہا ہے؟

17:1122/01/2025, بدھ
جنرل22/01/2025, بدھ
ایجنسی
اتوار کی رات مغربی کنارے کے دو گاؤں میں درجنوں نقاب پوش افراد نے فلسطینیوں پر تشدد کیا۔
تصویر : نیوز ایجنسی / روئٹرز
اتوار کی رات مغربی کنارے کے دو گاؤں میں درجنوں نقاب پوش افراد نے فلسطینیوں پر تشدد کیا۔

غزہ میں جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے مغربی کنارے (ویسٹ بینک) میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا ہے اور کچھ یہودی آباد کاروں نے دو فلسطینی قصبوں پر حملہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ حملے اور فوجی آپریشن ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کو یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے حماس کے ساتھ جنگ ​​بندی اور معاہدے پر راضی ہونے کے بعد اسرائیلی پارلیمنٹ کے انتہائی دائیں بازو کے حامیوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔ اسی دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان پابندیوں کو ختم کر دیا ہے جو بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلیوں پر لگائی تھیں۔ یہ اسرائیلی وہ ہیں جن پر الزام تھا کہ انہوں نے فلسطینی علاقوں میں تشدد کیا۔

یہ سیز فائر کم از کم چھ ہفتے تک جاری رہنے کا امکان ہے، اس دوران حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کا تبادلہ ہوگا۔ اسرائیلی جیلوں سے جو فلسطینی قیدی رہا ہوں گے ان میں زیادہ تر کو مغربی کنارے چلے جائیں گے۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مغربی کنارے، غزہ اور ایسٹ یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ یہ تینوں علاقے مستقبل میں ان کی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ ایک علاقے میں ہونے والی جھڑپیں دوسرے علاقوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہیں، جس سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کا اگلا مرحلہ کامیاب نہیں ہوگا۔


اسرائیلی فوج کا چھاپہ

اتوار کی رات مغربی کنارے کے دو گاؤں میں درجنوں نقاب پوش افراد نے فلسطینیوں پر تشدد کیا۔ پتھر پھینکے، گاڑیوں اور املاک کو آگ لگا دی۔ مقامی فلسطینی حکام کے مطابق 12 افراد کو مارا پیٹا گیا اور زخمی ہوئے۔

دوسری طرف اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے کے ایک اور علاقے میں چھاپہ مارا، جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ حملے اسرائیلی گاڑیوں پر پٹرول بم پھینکے جانے کے ردعمل میں تھا۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ کئی مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے اور ایک ویڈیو میں درجنوں افراد کو سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

منگل کو اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے شہر جنین میں ایک اور بڑی کارروائی شروع کی۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق کم از کم اس کارروائی کے دوران 9 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک 16 سالہ لڑکا بھی شامل ہے اور 40 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے فضائی حملے کیے اور سڑک کے کنارے بموں کو ناکارہ بنایا اور 10 فلسطینی فائٹرز کو ’ہٹ‘ کیا، تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ اس کا کیا مطلب تھا۔اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ زخمی ہوئے، پکڑے گئے یا مارے گئے، لیکن مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جنین میں فوجی کارروائی کو اسرائیل کی ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑی لڑائی کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل ایران اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل حملے کرتا رہے گا، جب تک کہ وہ مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔

فلسطینی ان فوجی کارروائیوں اور اسرائیلی بستیوں کے پھیلاوٴ کو علاقے پر اسرائیل کے کنٹرول کے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں 3 لاکھ فلسطینی طویل عرصے سے اسرائیلی فوجی حکمرانی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی مقامی سطح پر انتظامی امور چلاتی ہے۔



نیتن یاہو کے انتہا پسند اتحادی

نیتن یاہو کو جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے اپنے انتہا پسند اتحادیوں سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج کو غزہ کے بیشتر حصوں سے واپس جانا ہوگا اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا، جن میں حماس کے فائٹرز بھی شامل ہیں، بدلے میں 7 اکتوبر کے حملے میں اغوا کیے گئے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ہوگی۔

اسرائیلی کے ایک اتحادی ایتامار بن-گویر نے جنگ بندی کے فوراً بعد استعفیٰ دے دیا۔ دوسرے اتحادی وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد مارچ کے شروع میں جنگ دوبارہ شروع نہیں کرےگا، تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔

یہ انتہا پسند اتحادی چاہتے ہیں کہ اسرائیل مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملا لے، غزہ میں مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کرے اور فلسطینیوں کو یہ ترغیب دے کہ وہ خود اپنی مرضی سے علاقے چھوڑ کر کہیں اور جا کر رہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ فلسطینیوں کو ’رضاکارانہ‘ طور پر نقل مکانی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل کے اتحادی ایتامار بن-گویر کے جانے کے بعد بھی نتن یاہو کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، مگر اگر اسموٹریچ حکومت چھوڑ دیتے ہیں تو نتن یاہو کی اتحاد کمزور پڑ جائے گی اور نتیجے کے طور پر قبل از وقت انتخابات ہوسکتے ہیں۔ اس سے نتن یاہو کی 16 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور انہیں کرپشن کے الزامات اور 7 اکتوبر کے حملے کی ناکامی کی تحقیقات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔


ٹرمپ کی واپسی کتنی فائدہ مند ثابت ہوگی؟

ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی نتن یاہو کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اپنی پچھلی مدت میں ٹرمپ نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی تھی اور اب ان کی کابینہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیلی بستیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ماننا ہے کہ یہودیوں کو مغربی کنارے پر تاریخی اور مذہبی حق حاصل ہے کیونکہ قدیم زمانے میں وہاں یہودی بادشاہتیں موجود تھیں۔

زیادہ تر بین الاقوامی برادری ان بستیوں کو یہودی غیر قانونی سمجھتی ہے۔

صدر کے طور پر اپنے پہلے دن، ٹرمپ نے کئی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے تھے، جن میں ایک آرڈر یہ بھی تھا جس نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے مرتکب آبادکاروں اور یہودی انتہا پسندوں پر لگائی گئی پابندیاں ختم کر دیں۔ یہ پابندیاں زیادہ مؤثر نہیں تھیں لیکن بائیڈن انتظامیہ کے اسرائیل کے خلاف کیے گئے چند عملی اقدامات میں شامل تھیں، حالانکہ بائیڈن نے غزہ میں اسرائیل کی مہلک جنگ کے دوران اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی تھی۔

ٹرمپ نے بائیڈن کے رخصت ہونے سے پہلے غزہ جنگ بندی معاہدے کو حتمی شکل دینے کا کریڈٹ بھی لیا تھا۔ تاہم اس ہفتے ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ جنگ بندی زیادہ عرصے تک قائم رہے گی اور اشارہ دیا کہ وہ اسرائیل کو غزہ میں کھلی چھوٹ دیں گے۔"


یہ بھی پڑھیں:




#اسرائیل
#حماس اسرائیل جنگ
#ویسٹ بینک
#غزہ