’شامی انقلاب کے شور میں کہیں ہم فلسطین کو بھول تو نہیں رہے؟‘

09:5420/01/2025, Pazartesi
جنرل20/01/2025, Pazartesi
سِلچک ترکیلماز

ترکیہ کے نارتھ اور ایسٹ افریقا کے ملکوں (جیسے صومالیہ، ایتھوپیا، لیبیا اورسوڈان) سے تعلقات کو کچھ لوگ توسیع پسندانہ عزائم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ درحقیقت کالونیل ازم یعنی نوآبادیات (نئی بستیاں بسا کر کسی علاقے پر قبضہ کرنا اور اس کے وسائل لُوٹنے) کا جو لیبل عثمانی دور میں لگایا گیا تھا، پڑوسی ملکوں سے تعلقات کی وجہ سے آج بھی ترکیہ پر لگایا جارہا ہے۔ ان مفروضوں کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ تاہم جب خطہ مختلف طاقتوں کے لیے میدان جنگ بنا تو ترکیہ کو سب سے پہلے اپنے بچاؤ کا مسئلہ درپیش تھا۔ شام کے معاملے

خبروں کی فہرست

ترکیہ کے نارتھ اور ایسٹ افریقا کے ملکوں (جیسے صومالیہ، ایتھوپیا، لیبیا اورسوڈان) سے تعلقات کو کچھ لوگ توسیع پسندانہ عزائم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ درحقیقت کالونیل ازم یعنی نوآبادیات (نئی بستیاں بسا کر کسی علاقے پر قبضہ کرنا اور اس کے وسائل لُوٹنے) کا جو لیبل عثمانی دور میں لگایا گیا تھا، پڑوسی ملکوں سے تعلقات کی وجہ سے آج بھی ترکیہ پر لگایا جارہا ہے۔ ان مفروضوں کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ تاہم جب خطہ مختلف طاقتوں کے لیے میدان جنگ بنا تو ترکیہ کو سب سے پہلے اپنے بچاؤ کا مسئلہ درپیش تھا۔ شام کے معاملے میں مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ مزید پیچیدہ ہوگئے جس کا ترکیہ کے اندرونی معاملات پر گہرا اثر ہوا۔ اس عرصے میں وہ لوگ جنہیں مسائل کے معقول حل کی حمایت کرنی چاہیے تھی وہ خود بڑھتے ہوئے مسائل کا ایک حصہ بن گئے۔ اس کے نتیجے میں ترکیہ کے قدامت پسند گروپوں کو بھی یہاں مقیم شامیوں کے معاملے پر (جو چاہتے ہیں کہ شامی ترکیہ سے چلے جائیں) جغرافیائی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مشرقی فلسفیوں کے تجزیوں کا اثر وقت کے ساتھ گہرا ہوا ہے اور ہم نے اپنی تاریخ کو اسی انداز میں دیکھنا شروع کردیا ہے جیسا وہ دِکھانا چاہتے ہیں۔

کالونیل ازم کا جو لیبل عثمانی دور میں لگایا گیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترجمے کی غلطی کس طرح بڑا اثر ڈال سکتی ہے اور کس طرح غیرملکی نظریات آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔ کالونیل ازم کی اصطلاح دراصل اس لفظ کے وسیع معنی کا احاطہ نہیں کرسکتی۔

اسے استحصال کے تصور کے مترادف کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مشہور ترین ڈکشنریز نے اس کا ترجمہ ایکسپلوئیٹیشن اور آپریشن کے لفظوں میں کیا ہے۔ ترکیہ کے معروف ماہرین معاشیات بھی لفظ کالونیل ازم کو انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں، اس وجہ سے ہی اس لفظ کے لیے بےبنیاد استحصال کا تصور رائج ہوگیا۔ عثمانی تاریخ کو اِس نظر سے دیکھنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ اس دور میں لوگوں کو استحصال، بدسلوکی اور جبر کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اسی طرح نوآبادیاتی تصور کو عثمانی تاریخ سےجوڑتے ہیں۔ اگر انہیں علم ہوتا کہ یہ بچگانہ خیالات نظر کا دھوکا ہے، تو آج ان کی سوچ مختلف ہوتی۔

اب کالونیل ازم کی اصطلاح کے معنی وسیع ہوگئے ہیں۔ مگر اب بھی یہ آبادکار کالونیل ازم کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے ہم آبادکار کالونیل ازم کے اقدامات اور دیگر طرز کے کالونیل ازم کے اقدامات میں فرق نہیں کرسکتے۔ ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ اس لفظ کے معنی پہلے جیسے سخت نہیں رہے۔ تاہم آبادکار کالونیل ازم بھی کالونیل ازم کی ہی ایک شاخ ہے اور اس کا تعلق خاص انسانی آبادی سے ہے۔ وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس لفظ کے معنوں میں نرمی آئی ہے انہیں اس خاص کمیونٹی کے اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو غاصبانہ قبضے کے شکار رہے ہیں وہ حیران رہ جائیں گے۔ آبادکار کالونیل ازم کو حملے جیسی اصطلاح سے نہیں ملانا چاہیے۔ چھ سو سالہ عثمانی سلطنت کی تاریخ میں آپ کو آبادکار کالونیل ازم کی ایک بھی مثال نہیں ملے گی۔ کسی بھی نظریے کو ماننے والے تاریخ دان، ماہرمعاشیات، ماہرسیاسیات کو عثمانی تاریخ کے واقعات میں میں یا ترکیہ کے گرد موجودہ صورتحال میں آبادکار کالونیل ازم کی سوچ نظر نہیں آئے گی۔ مگرکالونیل اِزم اور حملے جیسی اصطلاحات معنی کو دھندلا دیتی ہیں اور موازنے کا امکان باقی نہیں رہنے دیتیں۔ جب فرانسیسی اور برطانوی تاریخ کا موازنہ ترک تاریخ سے کیا جاتا ہے تو بڑے اختلافات سامنے آتے ہیں جو آج کے دور میں سمجھنا بہت ضروری ہیں۔

جرگین اوسٹرہیمل کی کتابیں ترکیہ میں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو نظام عثمانی سلطنت نے 1517 سے 1798 کے دوران مصر میں قائم کیا اس سے عوام کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اوسٹرہیمل کے مطابق الگ زبان ہونے کے باوجود کیونکہ مذہب ایک ہی تھا اس لیے عدل و انصاف سے حکومت کے اسلامی تصور کو نقصان نہیں پہنچا۔ اس سلسلے میں یہ درست نہیں کہ ایم آئی ٹی (ترک انٹیلی جنس) کے صدر ابراہیم کلین کی دمشق میں امیہ مسجد میں عبادت کو صرف مذہبی یا جذباتی معنوں تک محدود کردیا جائے۔ میں نہیں جانتا کہ کلین کو شامی عوام سے ملنے والی محبت سے کیسا محسوس ہوا ہوگا مگر اتنا یقین ہے کہ اس محبت کی وجہ نے دیکھنے والوں کو حیران کر دیا ہوگا۔ وہ لوگ بھی حیران ہوں گے جو مدتوں سے کہہ رہے تھے کہ ’ہمارا آبادیاتی ڈھانچہ متاثر ہورہا ہے، ہماری ثقافت پر حملہ ہورہا ہے، شامیوں کو جلدازجلد یہاں سے چلے جانا چاہیے۔‘ انہوں نے ایسی بڑی جیوپالیٹیکل تبدیلی کی توقع بھی نہیں کی ہوگی۔

شامی انقلاب کے شور میں کہیں ہم فلسطین کو بھول تو نہیں رہے؟ یا خطے کا دل کہیں اور دھڑکنے لگا ہے؟ ہم ایک بہت اہم دور میں زندہ ہیں۔ نئی سوچوں کے بغیر اس دور کا فائدہ اٹھانا ممکن نہیں۔




یہ بھی پڑھیں:





#شام
#فلسطین
#انقلاب