احتساب عدالت اسلام آباد نے 190 ملین پاؤنڈ کیس یا القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنا دی۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے عمران خان اور اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنایا۔
فیصلہ سننے کے لیے کمرہ عدالت میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، شعیب شاہین، سلمان اکرم راجہ اور دیگر وکلا موجود تھے۔
جج ناصر جاوید رانا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو 14 سال قید با مشقت اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا جبکہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے‘۔
اس موقع پر اڈیالہ جیل کے اندر اور باہر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات تھے۔
احتساب عدالت اسلام آباد نے فیصلہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا۔ فیصلہ سنانے کے لیے پہلے 23 دسمبر اور پھر 6 جنوری اور پھر 13 جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی۔ لیکن کیس کا فیصلہ اس روز بھی نہ سنایا جا سکتا اور پھر عدالت نے 17 جنوری کو کیس کی تاریخ مقرر کی تھی۔
القادر ٹرسٹ یا 190 ملین پاونڈز کیس کیا ہے؟
یہ کیس 450 کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی کو دی۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔
نیب کے الزامات:
1.یہ معاملہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان مبینہ خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔
2.معاہدے کے تحت 190 ملین پاؤنڈز جو برطانیہ میں منجمد ہوئے تھے، پاکستان حکومت کے حوالے کیے گئے۔
3.سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی پر 460 ارب روپے کا جرمانہ لگایا تھا۔
4.برطانیہ سے منتقل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز (60 ارب روپے) کو اس جرمانے میں ایڈجسٹ کردیا گیا۔
5.اس کے بعد بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب میں سے صرف باقی رقم ادا کرنی تھی۔
6.مارچ 2021 میں بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم میں 458 کنال زمین دی۔
7.نیب کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ایک معاہدے کے تحت دی گئی۔
8.عمران خان اور دیگر ملزمان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
9.نیب کے ریفرنس کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں 6 نومبر 2019 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا۔
10.اس معاہدے کے تحت رقم کی پہلی قسط 29 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آچکی تھی۔
11.وفاقی کابینہ سے اس معاہدے کی منظوری 3 دسمبر 2019 کو لی گئی۔
12.کابینہ کو یہ نہیں بتایا گیا کہ رقم کی پہلی قسط پہلے ہی پاکستان پہنچ چکی ہے۔
13.ایسٹ ریکوری یونٹ (جس کے سربراہ شہزاد اکبر تھے) اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے درمیان بات چیت 2018 سے جاری تھی۔
معاملات چھپانے کے لیے بعد میں کابینہ سے منظوری لی گئی۔
14.پاکستان کے قوانین میں ایسی کوئی شرط نہیں کہ نیشنل کرائم ایجنسی اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے درمیان ہونے والا معاہدہ عوام کے سامنے نہ لایا جائے۔
15.ریفرنس کے مطابق برطانیہ سے آئی رقم وفاقی حکومت کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بھیجی گئی۔
16.نیب کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم فائدہ اٹھایا، جس کے بدلے القادر یونیورسٹی کے لیے عطیہ لیا گیا۔
17.نیب کے مطابق سرکاری عہدے پر ہوتے ہوئے کسی سے کوئی چیز لینا رشوت ہے۔
18.ریفرنس میں الزام ہے کہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح شہزادی کے نام پر 240 کنال زمین منتقل کی گئی۔
19.زلفی بخاری کے نام پر بھی زمین منتقل کی گئی۔
20.نیب کا دعویٰ ہے کہ زمین کی منتقلی کے وقت القادر ٹرسٹ تھا ہی نہیں۔
(اس کیس کی معلومات بی بی سی اور ڈان سے لی گئی ہیں)