اس بات پر تو تقریباً سب ہی متفق ہیں کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا زوال دراصل سرد جنگ کے دوران قائم ہونے والے جغرافیائی سیاسی نظام کے خاتمے کے ایک نئے مرحلے کا ثبوت ہے۔ یہ نظام عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد سامراجی طاقتوں نے مصنوعی طور پر قائم کیا تھا۔ اسے سرد جنگ دور میں خطے پر قبضہ جمانے کے لیے نافذ کیا گیا۔ اسرائیل کا قیام بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی تھا۔
1990 کی دہائی تک سرد جنگ ختم ہوچکی تھی۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا اور امریکہ واحد عالمی سپر پاور کے طورپر خود کومنوا چکا تھا۔ تاہم طاقت کے زور پر مشرق وسطیٰ کے نقشے میں تبدیلی کرنے کی امریکی کوششیں (جیسے عراق اور افغانستان میں) خطے کے سیاسی سماجی حقائق کے خلاف ہونے کے باعث ناکام رہیں۔ ان تنازعات سے واضح ہوا کہ کسی بیرونی طاقت کی جانب سے کسی قوم کی تعمیر مسلط کرنا ایک بےکار کوشش ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر اسد حکومت سرد جنگ کے اتنے عرصے بعد تک کیسے چلتی رہی؟ خلیجی ریاستیں، اسرائیل اور مغرب نے اس کی حمایت اس لیے کی کہ اس کے زوال کی صورت میں پیدا ہونےوالے سیاسی خلا سے اُن کے مفادات کو خطرہ ہوسکتا تھا۔ مگر یہ حمایت ہمیشہ کے لیے نہیں تھی۔ جونہی عالمی صورتحال تبدیل ہوئی یہ ناگزیر ہوگیا کہ مشرق وسطیٰ کا فرسودہ جغرافیائی سیاسی ڈھانچہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔
اسد حکومت نے’خاموشی کی سلطنت‘ پر حکمرانی کی، جس کی بنیاد خفیہ قیدخانوں اور اجتماعی قبروں پر رکھی گئی تھی۔ اب زمین میں دفن خوفناک داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ آمر حکومت نے مغرب سمیت دیگر اتحادیوں کی مدد سے جو مظالم کیے وہ سب آشکار ہورہے ہیں۔ مغرب اس تباہی و بربادی سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔ 61 سال تک یہ نظام موجود رہا اور اس کا بےنقاب ہونا ان تمام لوگوں پر سوال اٹھاتا ہے جو اس کی بقا میں مددگار تھے۔
لبرل بین الاقوامی اصولوں پر عمل کی دعویدار مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ او شمالی افریقا میں مقامی سطح پراٹھنے والی اصلاحی تحریکوں کو ناکام بنانے کی ذمہ دار ہیں۔ جابر حکومتوں کی حمایت کرکے انہوں نے ان معاشروں میں فطری ارتقاء کو نقصان پہنچایا، انتہا پسندی کو فروغ دیا جس نے پورے خطے کو نقصان پہنچایا۔
حافظ الاسد اور دیگر عرب حکومتوں نے فلسطینی تحریک کا فائدہ اٹھایا، اسے تنازعات کے حل کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ فلسطینی ریاست قائم نہ ہو۔ حافظ الاسد کے دور میں دمشق سمیت عرب دارالحکومتوں میں شروع ہونے والی انقلابی تحریکوں کو دبایا گیا۔ اپنے والد کی طرح بشارالاسد کی بھی فلسطینی تحریک سے کوئی حقیقی وابستگی نہیں تھی، ان کی توجہ مفاد پرست اتحادوں کے ذریعے اپنی حکومت کو برقرار رکھنے پر تھی۔
اب صورتحال بدل چکی ہے، بشار الاسد وراثت میں ملی آمریت کے آخری حکمران تھے جو تباہی سے بال بال بچے ہیں۔ دیگر غاصب حکمرانوں کی طرح انہوں نے اپنے بچاؤ کو ترجیح دی اور اپنے اطراف موجود لوگوں کو دھوکہ دیا۔ ان کی حکومت کے محافظوں کو اگر ان کے فرار کے منصوبوں کا پتہ ہوتا تو وہ ان پر حملہ کرنے میں شاید بالکل نہ ہچکچاتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غاصب اور جابر حکمران اپنے لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور پیچھے انتشار چھوڑ جاتے ہیں۔
کئی برسوں سے حافظ اور بشارالاسد کے حامی نعرے لگاتے ہیں کہ ’ہمارا خون اور روح تمہارے لیے ہے‘۔ بشارالاسد کے عمل سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ ایسی کوئی قربانی لینے کے حقدار ہیں۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے، عوام روتے ہیں تو غاصب حکمران ہنستے ہیں، اقتدار چھن جائے تو اپنے قریبی ساتھیوں کو انجام کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔