امریکہ شام میں کیا چاہتا ہے؟

15:3622/01/2025, بدھ
جنرل22/01/2025, بدھ
قدیر استن

امریکہ آخر شام میں کیا چاہتا ہے؟ یہ بحث بے کار ہے کیوںکہ اس سوال کا کوئی واضح جواب موجود نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کئی سالوں سے امریکہ کی شام میں ’ڈی فیکٹو پالیسی‘ زیادہ تر اس پر مبنی رہی ہے کہ وہ ’کیا نہیں چاہتا‘، بجائے اس کے کہ کوئی جامع حکمت عملی ہو۔ اس غیر واضح پالیسی کی وجہ سے امریکہ کا رویہ غیر مستقل رہا ہے۔ کبھی وہ شام کے تنازعے سے خود کو دور رکھنا چاہتا ہے اور کبھی شام کو مکمل طور پر ایران اور روس کے اثر و رسوخ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن کی حکومتوں

خبروں کی فہرست

امریکہ آخر شام میں کیا چاہتا ہے؟ یہ بحث بے کار ہے کیوںکہ اس سوال کا کوئی واضح جواب موجود نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کئی سالوں سے امریکہ کی شام میں ’ڈی فیکٹو پالیسی‘ زیادہ تر اس پر مبنی رہی ہے کہ وہ ’کیا نہیں چاہتا‘، بجائے اس کے کہ کوئی جامع حکمت عملی ہو۔ اس غیر واضح پالیسی کی وجہ سے امریکہ کا رویہ غیر مستقل رہا ہے۔ کبھی وہ شام کے تنازعے سے خود کو دور رکھنا چاہتا ہے اور کبھی شام کو مکمل طور پر ایران اور روس کے اثر و رسوخ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن کی حکومتوں کے دوران شام سے متعلق غیر واضح اور متضاد پالیسی دراصل امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تبدیلی کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں اپنی توجہ اور وسائل کم کرکے چائنہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے مقابلے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔شام میں امریکہ کی پالیسی کو 'پالیسی آف نو پالیسی' کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ یعنی امریکہ نے شام کے معاملے میں نہ تو کوئی واضح حکمت عملی اپنائی اور نہ ہی مؤثر اقدامات کیے۔ ایک طرف وہ اپنی طے کردہ 'ریڈ لائنز' کو نظر انداز کرتا رہا، جبکہ دوسری طرف سیاسی حل کی طرف بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہ غیر فعال اور متضاد رویہ شام کی خانہ جنگی کے خاتمے اور خطے میں استحکام لانے کی کوششوں میں ایک بڑی رکاوٹ رہا۔

آج ایسا لگتا ہے کہ امریکہ واضح طور پر یہ کہنے سے قاصر ہے کہ وہ شام میں کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔


اوباما کی ہچکچاہٹ

جب عرب ممالک میں عوامی انقلابی تحریک شام تک پہنچی تو اُس وقت کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی قیادت میں اوباما حکومت شام میں اپوزیشن کی حمایت اور حکومت کی تبدیلی کے حق میں نظر آئی۔ تاہم اوباما امریکا کو مشرق وسطیٰ سے نکالنے اور ایشیا پر توجہ رکھنا چاہتے تھے، ان کی ترجیح ایران کی نیوکلیئر ڈیل تھی اسی وجہ سے انہوں نے شام کو اسٹریٹجک ترجیح نہ بننے دیا۔ اہم موڑ جیسے کہ شام کی اپوزیشن کی حمایت کے منصوبوں کو ملتوی کرنا، نوفلائی زونز کے قیام سے انکار، تنازعے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طور پر پیش کرنا اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر روس کی مدد سے ڈیزارمامنٹ معاہدہ (یعنی اسلحے کا استعمال کم کرنے کا معاہدے) کرنا—یہ چند مثالیں ہیں جو شام میں فیصلہ کن کارروائی کے سلسلے میں اوباما کی ہچکچاہٹ کو ظاہر کرتی ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں اہم موڑ تب آیا جب داعش نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کیا اور کوبانی (شام کا ایک شہر) کی جانب پیش قدمی کی۔ اس کے جواب میں اوباما نے امریکی فوجیوں کو براہِ راست میدان جنگ میں بھیجنے کے بجائے پینٹاگون کو وہاں کی مقامی فورسز یا گروپوں کو تربیت، اسلحہ اور دیگر مدد فراہم کرنے کا ٹاسک دیا تاکہ وہ داعش کی ’خلافت‘ کو ختم کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں 2014 کے شروع میں پی وائے ڈی (ڈیموکریٹک یونین پارٹی: شام کی کرد اپوزیشن جماعت) کو’عارضی‘ اور ’محدود‘ حمایت ملنا شروع ہوئی۔ اگرچہ اوباما کی کم لاگت والی پالیسی داعش کے خلاف مستقل تعاون کی شکل اختیار کرتی نظر آئی، لیکن یہ واضح تھا کہ (امریکہ اور مقامی اتحادیوں کے درمیان) یہ تعلق ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتا تھا اور آخرکار ختم ہو جائے گا۔ کانگریس، جو اس بات پر مطمئن تھی کہ داعش مخالف مہم کامیاب رہی، اس نے اس شراکت داری کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے اسٹریٹجک مقصد کا نام دے دیا۔ (جو دراصل ایک تیکنیکی اور عارضی حل تھا)


ٹرمپ کا یقین

جب اوباما کی تیکنیکی مداخلت، جو کہ کسی حد تک اسٹریٹجک شراکت داری کی صورت اختیار کر گئی تھی، ٹرمپ کے دور میں بھی جاری رہی، تو ٹرمپ نے یہ سوال اٹھایا کہ ‘ہم شام میں کیا کر رہے ہیں؟‘ تاہم سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے دلائل نے ٹرمپ کو قائل کیا کہ امریکہ نے پی وائے ڈی (کرد ملیشیا) کے ساتھ مل کر جنگ لڑی ہے اور اب وہ ایران اور روس کےلیے میدان خالی نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کے علاوہ کانگریس اور عوامی رائے نے بھی ٹرمپ پر دباؤ ڈالا کہ وہ کردوں کی حمایت جاری رکھے، کیونکہ انہیں چھوڑ دینا امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا۔

ٹرمپ شام میں کوئی بڑا فائدہ نہیں دیکھ رہے تھے، جس کی وجہ سے شام میں امریکہ کی حکمت عملی کمزور اور غیر واضح ہوتی نظر آ رہی تھی۔ پی وائے ڈی (کرد ملیشیا) کی حمایت ختم کرنے کے لیے وہ واحد شخص جو ٹرمپ کو قائل کر سکتا تھا، وہ ترک صدر رجب طیب اردگان تھے۔ شام کے لیے ترکیہ کی مستقل پالیسی میں تمام توجہ بارڈر سیکیورٹی، پناہ گزینوں کے مسئلے، فوجی مداخلتوں اور سیاسی مذاکرات پر تھی۔ یہی امور ٹرمپ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ وہ شام سے امریکی افواج کو واپس بلائیں اور داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کامیابی کا اعلان کریں۔ تاہم، واشنگٹن کی وسیع تر پالیسی، جو اسرائیل کے مفادات کی حفاظت اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی موجودگی کو برقرار رکھنے پر مرکوز تھی، نے آخرکار ٹرمپ کی ذاتی ترجیحات پر غالب آ کر فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں شام میں امریکی فوج کی موجودگی برقرار رکھی گئی۔


بائیڈن کی بے حسی

بائیڈن انتظامیہ نے شام کے حوالے سے پالیسی کے خلا کو برقرار رکھا اور اپنی توجہ صرف دو اہم مسائل پر مرکوز رکھی: داعش کے خلاف جنگ اور انسانی امداد کی فراہمی۔ افغانستان، یوکرین اور غزہ کے معاملات میں مصروف بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی مکمل حکمت عملی ترتیب دینے میں دلچسپی نہیں دکھائی، اور شام کے حوالے سے تو بالکل بھی نہیں۔ جیسے جیسے ان کی مدت ختم ہورہی تھی، بائیڈن انتظامیہ کی توجہ شام سے ی پی جی کے مکمل انخلا سے پیدا ہونے والی شرمندگی سے بچنے اور ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکان پر مرکوز تھی۔

اِس وقت امریکہ کی جانب سے ایک ایسے گروپ کی حمایت جاری رکھنا جو نیٹو کے اتحادی ترکیہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہا ہے، اس کی پالیسی کے خلا اور ابہام کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پی وائے ڈی (کرد ملیشیا) کی حمایت کو جذباتی بنیادوں پر جائز قرار دینا، جیسے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ ہم نے مل کر لڑائی لڑی، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شام میں امریکہ کی حکمت عملی میں واضح سوچ اور منصوبہ بندی کی کمی ہے۔


آگے کیا ہوگا؟

پچھلے چند برسوں میں واشنگٹن حکومت نے شام سے متعلق کوئی جامع پالیسی وضع نہیں کی، امکان یہی ہے کہ آئندہ بھی امریکا ایسا کچھ نہیں کرے گا۔ اس کے بجائے امریکہ شاید موجودہ ’کامیابیوں‘ کو برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رکھے مگر اسے ایک مؤثر حکمت عملی میں تبدیل کرنے کے لیے امریکہ کو فیصلہ کرنے کی ہچکچاہٹ اور عدم دلچسپی کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر امریکہ شام کے لیے کوئی پائیدار پالیسی بنانا چاہتا ہے، تو اسے ایک نیا وژن یا سوچ اپنانا ہوگا۔


یہ بھی پڑھیں:



#امریکا
#شام
#مشرق وسطیٰ