چائنہ کی آبادی میں مسلسل تیسرے سال کمی

09:0517/01/2025, جمعہ
جنرل17/01/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
چائنہ کی آبادی 1980 کی دہائی سے آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے
تصویر : روئٹرز / فائل
چائنہ کی آبادی 1980 کی دہائی سے آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے

چائنہ کی آبادی 2024 میں لگاتار تیسرے سال کم ہوئی ہے۔ ملک میں شرح پیدائش میں معمولی اضافے کے باوجود مرنے والے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے سالوں میں ملکی آبادی میں تیزی سے کمی آسکتی ہے۔

چائنہ کے نیشنل بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق چائنہ کی آبادی 13 لاکھ 90 ہزار کم ہو کر 2023 میں 1 ارب 40 کروڑ 90 لاکھ تھی جو 2024 میں 1 ارب 40 کروڑ 80 لاکھ ہو گئی۔

خبر رسآں ادارے روئٹرز کے مطابق چائنہ کی آبادی 1980 کی دہائی سے آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ تاہم 1961 کے بعد پہلی بار 2022 میں جتنے لوگ پیدا ہورہے ہیں اس سے زیادہ لوگوں کی موت ہورہی ہے۔ 1961 میں ’چائنہ گریٹ لیپ فارورڈ‘ سے گزر رہا تھا۔ یہ ایک ایسا اقتصادی اور سماجی منصوبہ تھا، جو 1958 سے 1962 تک جاری رہا۔ اس کا مقصد ملک کی زراعت اور صنعتی پیداوار کو تیز رفتار سے بڑھانا تھا۔ لیکن اس منصوبے کی وجہ سے چائنہ میں قحط اور غذائی قلت پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کی موت ہوئی۔

چائنہ کے مختلف اداروں کی جانب سے شرح پیدائش میں اضافے سے متعلق مہم شروع کرنے کے باوجود، ملک کی شرح پیدائش وقت کے ساتھ کمی ہورہی ہے۔ نیشنل بیورو آف سٹیٹسٹکس نے کہا کہ اس رجحان کی وجہ سے چائنہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔

نیشنل بیورو آف سٹیٹسٹکس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ چائنہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے، ان میں ملک کے باہر سے بڑھتے ہوئے چیلنجز، ملک کے اندر کاروبار چلانے میں دشواری اور معیشت کا مشکلات کا سامنا کرنا شامل ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں:

بیجنگ نے شرح پیدائش بڑھانے کی کوشش کے لیے مراعات اور دباؤ کا مرکب استعمال کیا ہے۔ اس میں غیر شادی شدہ خواتین کو "بقیہ" کہنا، طلاق یا اسقاط حمل کو مشکل بنانا، اور بچوں کی دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جوڑوں کو مالی مدد کی پیشکش کرنا شامل ہے۔

بیجنگ نے شرح پیدائش بڑھانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے ہیں، جن میں غیر شادی شدہ خواتین کو ’غیر ضروری‘ کہہ کر ان پر دباؤ ڈالا، طلاق یا اسقاط حمل کے لیے سخت قوانین بنائے اور شادی شدہ جوڑے کو بچوں کی پرورش کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے لیے مالی امداد دینا شامل ہے۔

کووڈ19 کے خاتمے کے بعد 2023 میں شادیوں میں 12.4 فیصد اضافہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 2024 کے شروع میں چائنہ کے کچھ حصوں میں بچوں کی پیدائش میں کچھ وقت کے لیے اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:

چین نے 2016 میں ’ایک بچہ پالیسی‘ کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا، جو ملک کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے جاری تھی۔ لیکن اس پالیسی کے نتیجے میں آبادی میں عدم توازن آیا یعنی لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہو گئی۔

اب 2021 سے چائنہ میں فیملیز کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی قیمتیں، سست معیشت اور نوجوانوں میں بے روزگاری نے بہت سے نوجوانوں کے لیے بچے پیدا کرنے کی خواہش کو کم کردیا ہے۔

چائنہ کی معیشت میں 2024 میں 5 فیصد اضافہ ہوا، جو حکومت کی توقعات کے مطابق تھا۔ تاہم آنے والے سالوں میں معیشت کی ترقی کی رفتار کم ہونے کا امکان ہے۔

کم ہوتی آبادی سے نمٹنے کے لیے بیجنگ نے ریٹائرمنٹ کی عمر کو آہستہ آہستہ بڑھانے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ انتظامی اور تکنیکی ملازمتوں میں مرد اب 60 کی بجائے 63 سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گے، ان ملازمتوں میں خواتین 55 کی بجائے 58 سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گی۔

چین ایسٹ ایشیا کا واحد ملک نہیں ہے جو کم ہوتی آبادی کا سامنا کر رہا ہے۔ جاپان، ساوٴتھ کوریا اور تائیوان بھی اسی طرح کی وجوہات کی وجہ سے آبادی میں کمی دیکھ رہے ہیں۔ دیگر ایسٹ ایشیائی ممالک کی طرح چین بھی غیر شادی شدہ خواتین کو آئی وی ایف جیسے علاج تک رسائی کی اجازت نہیں ہے۔


تازہ ترین:







#چائنہ
#آبادی
#ایشیا