پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر کرم کے علاقے بگن میں پاراچنار میں امدادی سامان لے جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں ایک فوجی اہلکار سمیت چھ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
نجی میڈیا جیو نیوز کے مطابق سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ حملہ آوروں نے آج (جمعرات کو) پاراچنار جانے والے قافلے کو نشانہ بنایا جس میں دوائیں، سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے خوردونوش لے جانے والے کارگو ٹرکوں پر شدید فائرنگ کی گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز اور پولیس کی فوری جوابی کارروائی سے دہشت گردوں موقع سے فرار ہوگئے۔
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ 10 گاڑیاں بحفاظت ضلع کرم کے ایک قصبے علی زئی پہنچ گئی ہیں جبکہ باقی گاڑیوں کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر روک دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شوکت علی نے کہا ہے کہ ’حملے میں ایک فوجی ہلاک، اور چار دیگر زخمی ہوئے۔ امدادی قافلے میں شامل تین گاڑیوں کو نقصان پہنچا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کے حملے کے جواب میں سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، جس میں چھ دہشت گرد مارے گئے اور 10 دیگر زخمی ہوئے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 35 مال بردار گاڑیوں پر مشتمل تیسرے امدادی قافلے کا پہلا مرحلہ باغان سے ہوتا ہوا کرم جا رہا تھا۔
قافلے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حکام نے پولیس، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی فورسز تعینات کی تھیں۔
مریضوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس معطل، حالات مزید خراب ہونے لگے
یاد رہے کہ کرم سے مریضوں کو پشاور ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر سروس پچھلے 10 دنوں سے معطل ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر میر حسین جان نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہیلی کاپٹر سروس، جو ادویات اور مریضوں کی منتقلی کے لیے انتہائی ضروری تھی، پچھلے 10 دنوں سے بند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے ہیلی کاپٹر سروس کی بحالی کے لیے پہلے ہی ایک خط بھیج دیا ہے۔
ڈاکٹر میر حسین جان نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کو 74 مریضوں کی منتقلی کی درخواست دی گئی ہے، کیونکہ موجودہ حالات میں مریضوں کو بذریعہ روڈ پشاور منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔
حکومت نے گزشتہ دو ہفتوں میں کرم کے لیے دو امدادی قافلے بھیجے ہیں، جن میں سے آخری قافلہ 14 جنوری کو قبائلی علاقے میں پہنچا۔
تاہم مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ 25 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان کافی نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مزید ادویات فراہم کی جائیں اور ان مریضوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس دوبارہ شروع کی جائے۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر اشفاق خان نے بتایا کہ امن معاہدے کے تحت اب تک چار بنکرز ختم کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امن معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
نومبر 2024 میں شروع ہونے والے قبائلی فسادات کے بعد کئی مہینوں سے کرم میں پرتشدد حملے اور لڑائی جاری ہے، اس دوران ابتک 130 سے زائد افراد ہلاک اور 100 دن سے زیادہ سڑکیں بند رہیں۔
کئی ہفتوں کی سڑک بندش کی وجہ سے خوراک اور ادویات کی قلت کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جس کے باعث سو سے زیادہ بچے ہلاک ہوچکے تھے۔
تاہم گرینڈ جرگہ، کرم امن کمیٹی، اور مقامی امن گروپوں کی کوششوں سے لڑنے والے قبائل کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے میں سڑکیں بحال کرنے اور امدادی سامان کی اجازت سمیت 14 نکات شامل تھے۔
اس امن معاہدے کے باوجود پاراچنار جانے والا راستہ بند رہا اور 4 جنوری کو باغان کے قریب ایک امدادی قافلے پر حملہ بھی ہوا تھا، جس میں کرم کے ڈپٹی کمشنر زخمی ہو گئے تھے۔