غزہ سیز فائر چھ ہفتوں تک جاری رہے گی، پہلے مرحلے میں حماس 33 قیدیوں کو رہا کرے گا
ایک فلسطینی گروپ نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو تصدیق کی ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری ہوگئی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ غزہ اور مصر کے درمیان واقع فلاڈیلفی کوریڈور پر اسرائیلی افواج کی تعیناتی کے حوالے سے حماس پیچھے ہٹ گئی ہے۔
’معاہدے میں ابھی بھی کئی ایسے پوائنٹس ہیں جنہیں حل نہیں کیا گیا اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- ان اہم پوائنتس کو آنے والے گھنٹوں میں حتمی شکل دے دی جائے گی۔
قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہو گا۔
جنگ بندی ممکن ہونا بہترین امریکی سفارتکاری کا نتیجہ ہے، بائیڈن
دوسری جانب امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ ’امید ہے کہ اس معاہدے کی مدد سے غزہ میں لڑائی رک سکے گی، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ 15 مہینے کی قید کے بعد ملنے کا موقع ملے گا۔‘
دوسری جانب امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے یہ معاہدہ مئی 2024 کو بنایا تھا جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے پاس کیا گیا۔ بائیڈن نے کہا کہ جنگ بندی ممکن ہونا بہترین امریکی سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔ ’میری سفارتکاری کبھی بھی اس کو حتمی نتیجے تک پہنچانے سے پیچھے نہیں ہٹی۔‘
ہم قیدیوں کی رہائی سے متعلق ڈیل حاصل کرچکے ہیں، ٹرمپ
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کہا کہ ’مشرق وسطی میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق ڈیل حاصل کرچکے ہیں۔ انہیں جلد رہا کردیا جائے گا۔‘
اس سے پہلے ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں تاہم اسرائیلی وزیراعظم آفس نے فوری طور پر اس بات کی تردید کردی تھی۔
منگل کی رات امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا تھا کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ ’مکمل ہونے کے مراحل میں ہے‘ اور ’حماس کے جواب‘ کا انتظار کر رہے ہیں۔
حماس کے ایک سینیئر عہدیدافر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس نے معاہدے پر ابھی تک جواب نہیں دیا ہے کیونکہ اسرائیل نے ابھی تک وہ نقشے جمع نہیں کرائے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ اس کی فوجیں غزہ کے علاقوں سے کیسے واپس جائیں گی۔
تاہم اسرائیل کے اخبار ہیراٹس نے اسرائیلی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے نقشوں کے بارے میں حماس کے دعوے کی تردید کردی ہے۔
ایک فلسطینی اہلکار نے بی بی سی انگلش کو بتایا تھا کہ حماس معاہدے کے پہلے دن تین قیدیوں کو رہا کرے گا جس کے بعد اسرائیل آبادی والے علاقوں سے فوج کا انخلاء شروع کر دے گا۔
بنیامن نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے کچھ اراکین کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔
اس سے پہلے دوحہ میں امریکہ اور قطر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات ہورہے تھے۔ دونوں کے مذاکرات کار ایک ہی عمارت میں تھے لیکن دونوں نے آمنے سامنے نہیں بیٹھے تھے۔ اور دونوں کے درمیان امریکہ اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
حماس نے اسرائیل کے ساتھ قطر میں جاری مذاکرات پر ’اطمینان‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے امید ہے کہ بات چیت کا یہ مرحلہ کسی معاہدے پر ختم ہوگا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے فلسیطینی عہدیدار نے کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ مکمل ہونے کے مراحل میں ہے اور اسے اسی ہفتے منظوری دے دی جائے گی۔ ثالث قطر نے بھی کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس معاہدے کے ’کافی قریب ہیں۔‘
جنگ بندی معاہدے میں کیا شامل ہے؟
اس معاہدے کے تین مراحل ہیں، پہلا مرحلہ 40 سے 42 دن تک جاری رہے گا۔
قیدیوں کا تبادلہ
پہلے مرحلے میں حماس 34 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔ ان میں بچے، خواتین سمیت خواتین فوجی، 50 سال سے زائد عمر کے مرد، زخمی اور بیمار شامل ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ زیادہ تر زندہ ہیں لیکن حماس کی طرف سے اس کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
پہلا مرحلہ قریب 42 دن تک جاری رہے گا۔ اگر پہلا مرحلہ پلان کے مطابق کامیاب ہوا تو، اس کے 16 ویں دن بعد، مذاکرات دوسرے مرحلے پر شروع ہوں گے جس کے دوران باقی زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا اور مردہ قیدیوں کی لاشیں واپس کر دی جائیں گی۔
قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل اپنی جیلوں سے ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اسرائیل نے اس وقت 10 ہزار 300 سے زائد فلسطینیوں قید میں رکھا ہوا ہے، جب کہ ایک اندازے کے مطابق غزہ میں 99 اسرائیلی شہری زیر حراست ہیں۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں کئی اسرائیلی قیدی مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی واپسی
اسرائیلی فوجیوں کا غزہ کے شہری علاقوں سے انخلا مرحلہ وار ہوگا اسرائیلی فوج اسرائیلی سرحدی قصبوں اور دیہاتوں کے دفاع کے لیے اپنے سرحدی حدود میں موجود رہیں گی۔
غزہ کے نارتھ پر مصر کی سرحد سے متصل فلاڈیلفی کوریڈور پر حفاظتی انتظامات ہوں گے، جب کہ معاہدے کے پہلے چند دنوں کے بعد اسرائیل کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
اسرائیل ساوٴتھ میں بے گھر لوگوں کو نارتھ غزہ کی طرف واپس جانے کی اجازت دے گا۔ جو لوگ کار، گدھا گاڑیوں اور ٹرکوں میں جارہے ہیں ان کی نگرانی ایکسرے مشین کے ذریعے کی جائے گی۔
مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کو کھول دیا جائے گا، جس سے بیمار افراد طبی علاج کے لیے غزہ سے باہر جاسکتے ہیں۔
معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے مذاکرات جنگ بندی کے 16ویں دن شروع ہوں گے۔
کیا اسرائیل اور حماس کے درمیان پہلے بھی سیز فائر ہوچکا ہے؟
غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے جنگ شروع ہونے کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ بندی 24 نومبر 2023 کو ہوئی تھی۔
قطر کی ثالثی میں ہونے والی اس چار روزہ جنگ بندی کے دوران حماس نے 50 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا تھا جب کہ اسرائیل نے 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم اس جنگ بندی کے باوجود اسرائیل اور حماس دونوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا اور اسرائیل نے غزہ میں بمباری بھی کی۔
بعدازاں یہ سیز فائر یکم دسمبر 2023 کو ختم ہوگیا تھا، جب جنگ بندی کو بڑھانے کے لیے مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔