غزہ میں جنگ شروع ہونے کے 15 مہینے سے زائد عرصے بعد اسرائیل اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے قریب ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات آج قطر میں دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔
بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے سفیر دوحہ میں موجود ہیں اور دونوں انتظامیہ مذاکرات میں پیشرفت کا کریڈٹ لینے کی کوشش کریں گی۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کے حلف اٹھانے تک اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو مڈل ایسٹ میں تشدد پربا ہوگا۔ اس بارے میں بھی ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا نئی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاہدے کے موجودہ شرائط وہی رہیں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حماس نے اسرائیلی فوجیوں کو غزہ سے نکلنے کی شرط ختم کر دی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب ہیں، جب کہ اسرائیلی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ معاہدہ چند گھنٹوں، دنوں یا اس سے زیادہ وقت میں ہو سکتا ہے۔
غزہ جنگ بندی ڈیل بہت قریب ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ جنگ بندی ڈیل بہت قریب ہے اور ممکنہ طور پر اس ہفتے کے آخر میں یہ مکمل ہو جائے گی۔
ٹرمپ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ انہیں یہ کرنا ہے اور اگر وہ یہ نہیں کرپاتے تو وہاں بڑی پریشانی ہوگی، جیسی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔
نومنتخب صدر نے معاہدے سے متعلق کہا کہ میں سمجھتا ہوں ایک مصافحہ ہوا ہے، وہ اسے ختم کررہے ہیں اور شاید یہ اس ہفتے کے آخر تک ہوجائے۔
جنگ بندی معاہدے میں کیا شامل ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے تین مراحل ہیں، پہلا مرحلہ 40 سے 42 دن تک جاری رہے گا۔
قیدیوں کا تبادلہ
پہلے مرحلے میں حماس 34 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔ ان میں بچے، خواتین سمیت خواتین فوجی، 50 سال سے زائد عمر کے مرد، زخمی اور بیمار شامل ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ زیادہ تر زندہ ہیں لیکن حماس کی طرف سے اس کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
پہلا مرحلہ 60 دن تک جاری رہے گا۔ اگر پہلا مرحلہ پلان کے مطابق کامیاب ہوا تو، اس کے 16 ویں دن بعد، مذاکرات دوسرے مرحلے پر شروع ہوں گے جس کے دوران باقی زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا اور مردہ قیدیوں کی لاشیں واپس کر دی جائیں گی۔
قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل اپنی جیلوں سے ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اسرائیل نے اس وقت 10 ہزار 300 سے زائد فلسطینیوں قید میں رکھا ہوا ہے، جب کہ ایک اندازے کے مطابق غزہ میں 99 اسرائیلی شہری زیر حراست ہیں۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں کئی اسرائیلی قیدی مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی واپسی
اسرائیلی فوجیوں کا غزہ کے شہری علاقوں سے انخلا مرحلہ وار ہوگا اسرائیلی فوج اسرائیلی سرحدی قصبوں اور دیہاتوں کے دفاع کے لیے اپنے سرحدی حدود میں موجود رہیں گی۔
غزہ کے نارتھ پر مصر کی سرحد سے متصل فلاڈیلفی کوریڈور پر حفاظتی انتظامات ہوں گے، جب کہ معاہدے کے پہلے چند دنوں کے بعد اسرائیل کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
اسرائیل ساوٴتھ میں بے گھر لوگوں کو نارتھ غزہ کی طرف واپس جانے کی اجازت دے گا۔ جو لوگ کار، گدھا گاڑیوں اور ٹرکوں میں جارہے ہیں ان کی نگرانی ایکسرے مشین کے ذریعے کی جائے گی۔
مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کو کھول دیا جائے گا، جس سے بیمار افراد طبی علاج کے لیے غزہ سے باہر جاسکتے ہیں۔
معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے مذاکرات جنگ بندی کے 16ویں دن شروع ہوں گے۔
امداد میں اضافہ
غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ ہوگا، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ شدید انسانی بحران پیدا ہورہا ہے۔
اسرائیل نے انسانی بنیادوں پر غزہ میں امداد داخل ہونے کی اجازت دی ہے، لیکن اس پر اختلاف ہے کہ کتنی امداد جانے کی اجازت ہوگی اور آیا یہ امداد ان لوگوں تک پہنچے گی جنہیں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
غزہ کا کنٹرول کون سنبھالے گا؟
جنگ کے بعد غزہ کا کنٹرول کون سنبھالے گا، قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دور میں اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا تو جنگ ختم نہیں ہوگی۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے خیال کو بھی مسترد کردیا ہے۔