ہر لمحے بدلتی مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست: ترکیہ، اسرائیل اور اثر و رسوخ کی جنگ

12:5120/01/2025, پیر
جنرل20/01/2025, پیر
سلیمان سیفی اوئن

جس وقت دنیا کی توجہ روس یوکرین جنگ پر مرکوز تھی، 7 اکتوبر کے واقعات اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت نے ہر ایک کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ واقعہ سب محض اتفاق نہیں تھا۔ اسرائیل کی فاشسٹ، انتہا پسند حکومت نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور غزہ میں حقیقی نسل کشی شروع کردی۔ وہ وہیں صرف یہی پر نہیں رکے، بلکہ انہوں نے لبنان اور شام تک اپنا آپریشن پھیلا دیا۔ اس وسعت کا بنیادی مقصد ایران کے ساتھ ایک محاز آرائی میں الجھنا تھا۔ لیکن اس کی دو بڑی عالمی وجوہات بھی تھیں۔ ایران کے علاوہ اس

خبروں کی فہرست

جس وقت دنیا کی توجہ روس یوکرین جنگ پر مرکوز تھی، 7 اکتوبر کے واقعات اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت نے ہر ایک کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ واقعہ سب محض اتفاق نہیں تھا۔ اسرائیل کی فاشسٹ، انتہا پسند حکومت نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور غزہ میں حقیقی نسل کشی شروع کردی۔ وہ وہیں صرف یہی پر نہیں رکے، بلکہ انہوں نے لبنان اور شام تک اپنا آپریشن پھیلا دیا۔ اس وسعت کا بنیادی مقصد ایران کے ساتھ ایک محاز آرائی میں الجھنا تھا۔ لیکن اس کی دو بڑی عالمی وجوہات بھی تھیں۔ ایران کے علاوہ اس کا مقصد مشرقی بحیرہ روم، مشرقِ وسطیٰ اور آخرکار افریقہ میں روس اور چائنہ کا اثرو رسوخ ختم کرنا تھا۔

یوکرین کے ساتھ جنگ میں مصروف روس نے انڈیا اور چائنہ کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے اور ایران اور نارتھ کوریا کے ساتھ اسٹریٹجک اورملٹری اتحاد قائم کیا۔ آخر میں چائنہ ایران کے ساتھ ایک طویل مدتی پروگرام میں شامل ہوگیا، جس کا مقصد ایران اور خلیجی ریاستوں کے درمیان امن کی راہ ہموار کرنا تھا۔

7 اکتوبر اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات دراصل ان تمام معاملات کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی۔ روس کو مشرقِ وسطیٰ میں سر اٹھانے والے ایران مخالف جذبات کے سامنے جدوجہد کرنا پڑی، جو یوکرین جنگ کی وجہ سے پہلے ہی خطے میں اپنی عسکری موجودگی محدود کر چکا تھا۔ روس سمجھتا تھا کہ وہ ایران کے بغیر مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکتا لیکن وہ ایران کے ساتھ اتحاد کے نقصانات سے بھی آگاہ تھا۔ اسرائیلی حملے بنا روک ٹوک جاری رہے۔ روس نے آستانه مذاکرات کے ذریعے اسد حکومت اور ترکیہ کے مابین سفارتی راستے کھولنے کی کوششش کی، لیکن یہ قدم انتہائی تاخیر سے اور کسی حد تک مایوسی کے نتیجے میں اٹھایا گیا تھا۔ یہ بات سب پر واضح تھی کہ اردووان-اسد ملاقات بے سود رہے گی۔ ترکیہ نے اس بات کو سمجھ لیا اور ایران اسے کبھی تسلیم نہ کرتا۔ تاہم ترکیہ نے نام کی ہی سہی لیکن برتری قائم رکھتے ہوئے یہ یقینی بنایا کہ کم از کم وہ مذاکرات رد کرنے والی پارٹی نہیں ہے، اور یہی ٹھیک فیصلہ ثابت ہوا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں روس کا مزید کوئی عمل دخل نہیں رہا۔


یہ واضح تھا کہ اسد کی پوزیشن غیریقینی ہوتی جا رہی تھی۔ عرب لیگ میں شام کی دوبارہ شمولیت کا معاملہ، جس پر خلیجی عربوں اور مصر نے اسد کو ایک اور موقع دینے کی پیشکش بھی کی تھی، اسد کے لیے کچھ زیادہ فائدہ مند نہیں تھا۔

ایران اور اس کے اتحادی اکتوبر 7 کے بعد پیش آنے والے واقعات کے لیے تیار نہیں تھے۔ حزب اللہ نے 7 اکتوبر کے بعد فوری طور پر حماس کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو، ہم نہیں جانتے کہ حالات کچھ مختلف ہوتے یا نہیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے فوری فوجی کارروائیاں کیں اور لبنان میں حزب اللہ کی فورسز کو پیچھے دھکیل کر لیتانی دریا کے شمال تک محدود کر دیا۔ پھر اس نے شام پر شدید بمباری کرتے ہوئے ایران کی پوزیشن کو کمزور کیا اور پھر شام کے حالات تبدیل ہونا شروع ہو چکے تھے۔

ایسا لگتا ہے کہ ترکی نے حالات پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ اس نے ادلب میں اسٹرکچر قائم کرنے کی کوششوں کی حمایت کی، عراق میں اپنی موجودگی بڑھائی، اور قندیل ریجن میں آپریشن ’کلا-لاک‘ کے ذریعے پی کے کے (کردستان ورکرز پارٹی، ترکیہ میں موجود کرد مزاحمتی تحریک) کو کمزور کر دیا۔ ان آپریشنز کو شام کی صورتحال سے علیحدہ کر کہ نہیں دیکھا جاسکتا۔

بشار الاسد کے زوال اور ساتھ ہی روس اور ایران کو منظر سے باہر کرنے کی حکمت عملی کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں۔ ابتدا سے ہی میں نے لکھا تھا کہ یہ ایک اینگلو-امریکن منصوبے کا حصہ تھا جس کے کئی عناصر تھے۔ علاقائی سطح پر اس میں دو متضاد عناصر شامل تھے: اسرائیل اور ترکیہ۔ آگے مشرق وسطیٰ میں جو کچھ بھی ہوگا وہ بلا شبہ ان دونوں پارٹیز کے درمیان طاقت کی جنگ ہوگی۔ قدیم دریائے فراط یہاں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ دریائے فراط کے مغرب میں، ترکیہ ہے، جس کا کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)، سیرین نیشنل آرمی (ایس ایم او) اور ہئیت تحریرالشام (ایچ ٹی ایس) جیسی مزاحمتی تحریکوں پر مضبوط کنٹرول ہے اور یہ اثر و رسوخ وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک سال کی جنگ سے تھکا ہوا اسرائیل، دریائے فراط کے مغرب میں ترکیہ کے کنٹرول اور دمشق میں اس کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے حواس باختہ ہے۔ قطر کے سوا خلیجی عرب ریاستوں اور مصر میں بھی ہمیں ایسے ہی خدشات نظر آتے ہیں۔ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کے ارد گرد ایک محفوظ زون بنانے پر بھی توجہ مرکوز کر رہا ہے جبکہ مشرق میں پیپلز ڈیفنس یونٹس ( پی وائے ڈی، شام میں موجود کرد جنگجوؤں) کے دہشتگردوں کی حمایت بڑھا رہا ہے۔ ہئیت تحریر الشام جو واضح کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے، بھی اس صورتحال سے مطمئن نہیں۔ ہئیت تحریرالشام اور سیرین نیشنل آرمی کے اتحاد کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل ہر ممکن کوشش کرے گا، اس کے ساتھ وہ ترکیہ اور ہئیت تحریر الشام کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ اسرائیل یہاں نہیں رکے گا، بلکہ وہ اربیل (عراقی کردستان ریجن کا ایک شہر) میں ترکیہ کے اثرورسوخ کو بھی نشانہ بنائے گا۔ اس کا اگلا قدم شاید ایران میں انتشار پیدا کرنا اور ترکیہ-ایران محاز آرائی کا اسٹیج تیار کرنا ہو۔

اس کے جواب میں، ترکیہ ہئیت تحریر الشام اور پیپلز ڈیفنس یونٹ(پی وائے ڈی) کے درمیان فاصلوں کو برقرار رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔ اسی دوران، وہ دریائے فراط کے مشرق سے پی وائے ڈی کے خاتمے کے لیے انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ترکیہ کے لیے معاملہ 30 کلومیٹر کے سیکیورٹی زون بنانے سے کہیں زیادہ آگے کا ہے۔ ترک انٹیلیجنس، جس کو کبھی ہئیت تحریرالشام کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے، خطے سے پی وائے ڈی اور کردش عرب عناصر کے خاتمے پر کام کر رہی ہے تاکہ پی وائے ڈی کا اثر و رسوخ کم ہو۔ اگر ضرورت پڑی تو اس مقصد کے لیے ترک فوج بھی مداخلت کر سکتی ہے۔

بنیادی مسئلہ اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ اینگلو۔سیکسن انرجی کمپنیز خلیج اور مشرقی بحیرہ روم سے انرجی وسائل کو کس طرح یورپ تک لے جائیں گی۔ اس کا منطقی انتخاب تو یقیناً ترکیہ ہے۔ لیکن اسرائیل کی مخالفت اور طاقت کے حصول کے لیے اس کا جنون، معاملات کو الجھا دیتے ہیں۔ اسرائیل کی سب سے بڑی امید یہ ہے کہ ٹرمپ، بڑی دفاعی اور ٹیکنالوجی کمپنیز کی حمایت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔ ٹرمپ کی فیصلہ سازی میں دو متضاد عناصر شامل ہیں، ایک ان کی عملی اقتصادی ذہنیت جو ترکیہ کے حق میں جاتی ہے، دوسرے ایک ایونجلیکل نظریاتی اپروچ جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ کونسی ذہنیت غالب آئے گی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ کس حد تک ٹرمپ کو کنٹرول کر سکے گی۔ یہ کہنا قبل از وقت ہو سکتا ہے، لیکن ایک سوال باقی ہے ۔ اگر ترکیہ یہ طاقت کی جنگ جیت جاتا ہے تو اس کے بدلے میں ہم سے کیا مانگا جائے گا؟ کیا ہم ایک نئی کرمین جنگ کے دہانے پر ہیں؟ خدا نہ خواستہ۔۔۔۔۔




یہ بھی پڑھیں:




#شام
#ترکیہ
#بشار الاسد