ترکیہ میں ایک طبقہ ایسا ہے جو چاہتا تھا کہ ٹرمپ امریکی انتخابات جیتیں اور جب ایسا ہوا تو اس طبقے کے لوگوں کو بے حد خوشی بھی ہوئی۔ بظاہر ان کی وجوہات جائز لگتی ہیں۔ ڈیموکریٹس طویل عرصے سے ترکیہ کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، بائیڈن دور میں ان کا رویہ دشمنی کی حد تک سخت ہوگیا تھا۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ یہاں تک کہ انتخابی مہم کے دوران بھی بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ ترکیہ کی حکومت کی حمایت نہیں کریں گے اوراس کے خاتمے کےلیے اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اگرچہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، تو بائیڈن اور دیگر ڈیموکریٹس نے اکثر مختلف پلیٹ فارمز پر ترکیہ کو نظر انداز کیا اور تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس کی وجہ سے ترکیہ کے لوگ ٹرمپ کے دور کو یاد کرنے لگے۔
یہ درست ہے کہ ٹرمپ میں بھی خامیاں تھیں لیکن کم ازکم وہ ترکیہ سے کھلے عام دشمنی نہیں رکھتے تھے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان مسائل پر بات چیت کے لیے جب چاہیں ٹرمپ سے رابطہ کر سکتے تھے۔ یہ سیاسی تعلق سے کہیں بڑھ کر گہری عوامی ہم آہنگی کا معاملہ تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ کے سینٹرل اور ساوٴتھ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کی نمائندگی کی (وہ لوگ جنہیں نظر انداز کیا گیا اور اکثر ڈیموکریٹس سے جڑے اشرافیہ کے گروپوں کی طرف سے انہیں حقیر سمجھا گیا)۔ ٹرمپ کا سادہ انداز گفتگو، دوستانہ انداز اور قوم پرست بیانیہ نے ترکیہ میں موجود چند لوگوں سمیت بڑی تعداد میں لوگوں کے دِل جیت لیے۔
ٹرمپ کی مقبولیت کا ایک سبب ان کا کاروباری پس منظر بھی ہے۔ عام طور پر سیاسی امور پر معاشی امور کو ترجیح دے کر ہم نسبتاً زیادہ مستحکم دنیا تشکیل دے سکتے ہیں۔ انتہائی تقسیم زدہ سیاسی فضا میں ایسا ممکن ہے جہاں معاشی مفادات پر توجہ دینا زیادہ محفوظ لگتا ہے۔ مگر اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے یعنی معاشی ترجیحات پر زیادہ توجہ دینے سے بھی سیاسی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ میرے خیال میں معاشی ترجیحات کو قابو میں رکھنے کے لیے عقل سے سیاسی فیصلے کرکے توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ معاشی مقاصد کو سیاست پر ترجیح دینے سے (جیسا کہ ٹرمپ بھی سوچ رہے ہیں) مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنگوں کو ختم کرنے سے متعلق ٹرمپ کا بیان سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اس پر وسائل اور لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن یہی سوچ اگر منافع بخش معلوم ہوں تو نئی جنگیں بھی شروع ہو سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹس نے ’امریکہ واپس آگیا‘ کے نعرے پر الیکشن مہم چلائی، لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ پردے میں چھپے نیو کنزرویٹو ایجنڈے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، جس کا مقصد عسکریت پسندی میں اضافہ تھا۔ یہ نقطہ نظر براہ راست روس یوکرین جنگ اور بلا واسطہ اسرائیل فلسطین تنازعے کی وجہ بنا۔ جہاں اسرائیل نے ڈیموکرٹس کے عسکریت پسند مؤقف کو ایک موقع کے طور استعمال کیا وہیں روس یوکرین جنگ ڈیموکریٹس کے لیے ایک مشکل چیلنج بن گئی۔
روس یوکرین جنگ قابو سے باہر ہوگئی اور ڈیموکریٹس روس کو اقتصادی طور پر کمزور نہ کر سکے۔ اس کے بجائے ان کا سامنا ہوا عسکری طور پر زیادہ مضبوط روس سے ہوا جس کے چائنہ اور انڈیا تعلقات بہتر ہورہے تھے۔ اسی دوران اسرائیل فلسطین جنگ، ایک ایسا بحران بن گیا جس کی نہ تو ڈیموکریٹس کو توقع تھی نہ ہی اس کو سنبھالنا ان کے بس میں تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسرائیل کی حمایت پر مجبور ہوگئے۔
یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ کی با اثرشخصیات ڈیموکریٹس کی کارکاردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ لہٰذا انہوں نے سمجھا کہ ٹرمپ ہی ملکی مسائل کا واحد حل ہیں۔ دن بدن بگڑتی یوکرین جنگ کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت تھی جس کی قابلیت ڈیموکریٹس خاص کر کملا ہیرس کی قیادت میں نظر نہیں آرہی تھی۔ ٹرمپ جو شروع سے اس جنگ کے ناقد ہیں اس کام کے لیے بہتر انتخاب تھے۔ اس وقت امریکی پالیسی اسرائیل کے مقاصد کو سپورٹ کرنے اور چائنہ کو تنہا کرنے کے لیے انڈیا، گلف ممالک اور ممکنہ طور پر روس پر مشتمل ایک وسیع اتحاد بنانے میں تبدیل ہوگئی ہے۔
ٹرمپ پالیوکنزرویٹو(وہ سیاسی لوگ جو قدامت پسند اصولوں اور نظریوں کی حمایت کرتے ہیں) نہیں جو کچھ لوگ انہیں سمجھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے سفر کی شروعات وہیں سے ہوئی تھی لیکن اب وہ نیوکنزرویٹوز کے اُس طبقے کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی رکھتے ہیں جو جنگ کو یورپ سے مشرق وسطیٰ منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی توقعات کے مطابق ٹرمپ کے دور میں روس یوکرین جنگ کے خاتمے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن کشیدگی کم کرکے اور جنگ کے دورانیے کو بڑھا کر روس کو کمزور ہوجائے گا۔ روسی سرزمین پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملوں سے واضح پیغام ملتا ہے کہ جب تک روس کو کمزور نہیں کیا جاتا یہ جنگ جاری رہے گی۔
یورپ اس حکمت عملی میں اپنا کردار ادا کرنے لیے تیار نظر آتا ہے۔ جرمنی میں قیادت کی تبدیلی کے باوجود آنے والی کرسچن ڈیموکریٹ حکومت نے یوکرین کی مزید حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یورپ اس تنازعے میں امریکی حکمت عملی کے تحت اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
ٹرمپ کی جیت پر روس کا محتاط ردعمل اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ ان تمام محرکات کو سمجھتا ہے۔ ٹرمپ یوکرین جنگ کی کشیدگی شاید کم کروا سکیں لیکن ان کی انتظامیہ روس کو فیصلہ کن فتح دلوانے کے حق میں نہیں ہوگی۔ بلکہ اس تنازعے کو بڑھا دیا جائے گا تا کہ مستقبل میں عالمی نظام میں روس کی دوبارہ شمولیت امریکی شرائط کے مطابق ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ واقعی یہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں؟
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔