بلوچستان، جو اپنی تاریخ، ثقافت اور روایات کے لیے مشہور ہے، وہاں کی موسیقی بھی ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ بلوچستان کی موسیقی اور شاعری میں روایتی ساز، دھمال اور لوک گیتوں کا ایک الگ انداز ہوتا ہے، جن میں برہوی اور بلوچی زبان میں محبت اور جنگ کی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ ایسے میں بارہ سالہ سیمک بلوچ اپنی منفرد آواز کے ذریعے خطے کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
بارہ سالہ سیمک بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کچھی سے ہے اور سوشل میڈیا پر بلوچی اور برہوی زبان میں ان کے گانے کی ویڈیوز کو کافی پسند کیا جارہا ہے۔
سیمک کہتی ہیں کہ انہوں نے گانا گانے کا آغاز سات سال کی عمر میں کیا اور یہ شوق انہیں اسکول کے ماحول سے ملا۔
سیمک بلوچ نے بتایا کہ ’میں صبح سکول جاتی ہوں پھر دوپہر کو واپس آنے کے بعد میرے استاد مجھے ٹریننگ دیتے ہیں، اوہ مجھے آواز کے اتار چڑھاؤ اور گانے کی تکنیک سکھاتے ہیں، چھ سال کی عمر سے گانا گاتے ہوئے جتنا نکھار میری آواز میں آیا ہے، وہ میرے استاد کی محنت کا نتیجہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلی بار جب میں نے سکول میں پرفارم کیا تب میرے سکول ٹیچر نے مجھے احساس دلایا کہ میں گا سکتی ہوں، وہ دن ہے اور آج کا دن، اپنے شوق کو کبھی نہیں چھوڑا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ بلوچی اور براہوی زبانوں میں گانا گنگنانا صرف ان کا شوق ہی نہیں بلکہ ایک عبادت اور قومی ذمہ داری ہے۔
سیمک کا کہنا ہے کہ ’وہ قدیم شاعروں کے گیتوں کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری اور لوک گیتوں کو ری کریٹ کرتی ہیں۔ میری ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ بلوچی برہوی کلچر اور زبان کو پروموٹ کروں اور دنیا کو دکھاوں، اس کے ساتھ میں صوفی اور انقلابی خیالات پر بھی فوکس کرنا چاہتی ہوں‘۔
اپنی پسندیدہ شاعر کا نام بتاتے ہوئے سیمک نے کہا کہ وہ استاد عظیم جان، استاد مراد پارکوئی اور استاد اختر چنال کو آئیڈیلائز کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے گاوٴں یا فیملی میں گانے کا رواج نہیں ہے۔ یہ صرف ان کا شوق ہے جس میں ان کے والدین اور استاد نے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔
سیمک نے اپنے اس سفر میں کن مشکلات کا سامنا کیا، اس سوال پر وہ بتاتی ہیں کہ ’گانے سے پہلے میں بلوچ گانوں پر ڈانس کرتی تھی پھر لوگوں نے تنقید کرنا شروع کی کہ یہ ہمارا کلچر نہیں ہے، پھر جب گنگنانا شروع تو لوگوں نے دوبارہ تنقید کی کہ ’لڑکی ہوکر گانا گارہی ہو‘، ’یہ ہمارا مذہب ہمیں نہیں سکھاتا، یہ بلوچ کلچر نہیں ہے‘، وغیرہ وغیرہ لیکن میں نے لوگوں کی باتوں پر فوکس نہیں کیا کیونکہ میرے والدین میرے ساتھ تھے۔‘
وہ اپنی پہلی ویڈیو شوٹنگ کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’پہلی بار میرے ویڈیو کی شوٹنگ میرے اپنے گاوٴں میں ہوئی تھی، وہاں کی خواتین خاص طور پر کم عمر بچیاں بہت خوش تھیں، بلوچستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے لیکن صرف تھوڑی سی مدد، حوصلہ اور توجہ کی ضرورت ہے‘۔
’لوگ تنقید کرتے کہ بچی کو اسلامی تعلیمات سکھائیے، ناچ گانا بلوچ کلچر کا حصہ نہیں‘
سیمک کے والدین سے جب ہم نے رابطہ کیا تو ان کی والدہ نے بتایا ’بچپن میں سیمک جو گانا سنتی تھی، اسے بہت جلد یاد کر لیتی تھی اور پھر پورا دن گنگناتی رہتی تھی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’جب سیمک کے والد فیس بک پر اس کی کوئی ویڈیو پوسٹ کرتے، تو اکثر لوگ کمنٹس میں اعتراض کرتے کہ بچی کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے۔ کوئی کہتا کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سکھائیے، گانے گانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچ کلچر ایسے کاموں کی اجازت نہیں دیتا۔ ان سب باتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے اپنی بیٹی کو سپورٹ کیا۔‘
سیمک کے والد، امداد بلوچ، بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تمام بچوں کو آزادی کے ماحول میں جینا سکھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کا کام باتیں بنانا ہے، لیکن میں نے ہمیشہ منفی باتوں کو نظرانداز کیا اور اپنے بچوں کو بھی یہی سبق دیا۔ بطور والد اور ایک سیاسی و ثقافتی کارکن، میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اپنے بچوں کے خوابوں کو سپورٹ کروں۔‘امداد بلوچ مزید کہتے ہیں ’سیمک ابھی پروفیشنل سنگر نہیں ہے، وہ سیکھ رہی ہے اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہماری مادری زبانوں اور ثقافت کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے حکومتی سطح پر خاص اقدامات نہیں کیے جاتے، جو کہ بہت ضروری ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بیٹی کے بارے میں فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’میرے لیے سب سے زیادہ قابل فخر لمحہ وہ ہوتا ہے جب سیمک کسی چیز کی کوشش کرتی ہے اور اسے کامیابی سے انجام دیتی ہے۔ وہ بہت پراعتماد ہے اور دنیا کو جاننا اور ایکسپلور کرنا چاہتی ہے۔‘