ڈاکٹرمسعود پیزشکیان ہارٹ سرجن ہیں اور سابق وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں
ایران کی اخلاقی پولیس پر تنقید اور ایرانی پالیسیوں میں بہتری چاہنے والے ریفارمسٹ (اصلاح پسند) رہنما ڈاکٹرمسعود پیزشکیان ایران کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
ایرانی میڈیا اور غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ڈاکٹرمسعود پیزشکیان
ایک کروڑ 63 لاکھ ووٹ لے نئے صدر منتخب ہوگئے، ان کے مدمقابل سخت گیر رہنما سعید جلیلی ایک کروڑ 35 لاکھ ووٹ لے سکے۔
الیکشن کے دوسرے مرحلے میں تین کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے۔
28 جون کو انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے، الیکشن کے پہلے مرحلے میں ووٹرز ٹرن آوٴٹ 40 فیصد رہا جو ایرانی صدارتی انتخابات کے تمام ادوار میں سب سے کم شرح ہے۔
پہلے مرحلے میں کسی کو بھی اکثریت حاصل نہ ہونے کے بعد پانچ جولائی کو صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔
یاد رہے کہ یہ انتخابات مئی میں ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد کیے گئے تھے، جس میں سات دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔
ڈاکٹرمسعود پیزشکیان کون ہیں؟
71 سالہ ڈاکٹرمسعود پیزشکیان ہارٹ سرجن ہیں اور سابق وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں، وہ خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کے سخت ناقد رہے ہیں اور انہیں ’غیر اخلاقی‘ بھی قرار دے چکے ہیں۔
انہوں نے ایران کو دنیا سے جڑے رہنے اور مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے مغربی ممالک سے 2015 کے جوہری معاہدے کی تجدید کے لیے ’مذاکرات‘ پر بھی زور دیا ہے۔ اس معاہدے میں ایران نے مغربی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
الجزیرہ کے تجزیہ کار ریسل سردار عطاس نے کہا کہ ’ ڈاکٹر مسعود پیزشکیان نے خود کہا تھا کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں قدامت پسند ہیں لیکن جب پالیسیوں کی بات کی جائے تو وہ اصلاح پسند ہیں۔‘
’وہ پالیسیوں کے لحاظ سے ایک اصلاح پسند ہیں، تاہم وہ انقلابی اصولوں اور سپریم لیڈر کے رہنما اصولوں کے وفادار ہیں اور انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں سیاسی اور اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی بنیاد کو چیلنج نہیں کریں گے۔‘
ریسل سردار عطاس کہتے ہیں کہ ’وہ ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں اور وہ ایسے معاملات میں ایران کے موٴقف کا دفاع کریں گے لیکن انہوں نے جمہوریت کے ایک مخصوص ماڈل پر بھی توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ محدود آزادی کی وجہ سے لوگوں (خاص طور پر ایران کے نوجوانوں) کا دم گھٹ رہا ہے، انہوں نے سماجی انصاف، مساوی حقوق اور ملک میں خواتین کو آگے آنے پر توجہ دی۔‘
دوسری جانب ان کے حریف سعید جلیلی کو ایران کی سب سے زیادہ مذہبی برادریوں میں بھرپور حمایت حاصل ہے۔
وہ مغرب کے موٴقف کے سخت مخالف اور جوہری معاہدے کی بحالی کے بھی خلاف ہیں، ان کے بقول اگر جوہری معاہدے کی بحالی ایران کی ’ریڈ لائن‘ ہے۔
نئے صدر کو مستقبل میں چیلنجز کا سامنا ہے؟
ایران کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ملک میں مہنگائی کی شرح میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت بھی نیچے گر رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مسعود پیزشکیان کے صدر بننے کے بعد ملک میں ایک عملی خارجہ پالیسی کو فروغ مل سکتا ہے، 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات پر تناؤ کم ہو سکتا ہے اور ایران میں سماجی لبرلائزیشن کے امکانات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
نئے صدر کو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی اور ایران کی پابندیوں سے متاثرہ معیشت پر عوامی عدم اطمینان کا بھی سامنا ہے۔
تہران یونیورسٹی کے پروفیسر توحید اسدی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ڈاکٹر مسعود کی جیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی عوام ملکی اور خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
جوہری معاہدے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایران کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے گیند امریکہ اور اس کے مغربی اتحاد کے کورٹ میں ہے۔
ایرانی تجزیہ کار اور فارس میڈیا فیکلٹی کے پروفیسر مصطفی خوشچشم نے کہا کہ وہ ایران کی خارجہ پالیسی میں خاص تبدیلیوں کی توقع نہیں کر رہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ خارجہ پالیسی پر فیصلے پوری اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ یہ فیصلے خاص طور پر نیشنل سیکیورٹی کونسل میں ہوتے ہیں، اس کونسل میں حکومت، مسلح افواج، ایرانی سپریم لیڈر اور پارلیمنٹ کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔
نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا بھی بہت زیادہ اثر و سوخ ہوگا، جہاں جو بائیڈن دوبارہ ٹرمپ کے خلاف میدان میں اتریں گے۔
مصطفی خوشچشم نے بتایا کہ ’اگر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آتے ہیں تو مجھے کسی تبدیلی یا دونوں فریقوں کے درمیان کسی بات چیت کی توقع نہیں ہے۔‘