پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ، ’ملک آئی ایم ایف کے قرضوں میں چل رہا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں‘

15:2517/12/2024, Tuesday
جنرل18/12/2024, Wednesday
ویب ڈیسک
 اس بل ہر نئے سال میں جنوری 2025 سے عمل کیا جائے گا
اس بل ہر نئے سال میں جنوری 2025 سے عمل کیا جائے گا

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے پیر کے روز ایک بل منظور کیا ہے جس کے تحت اراکین اسمبلی، وزرا اور اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں میں پانچ سے دس گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اس بل ہر نئے سال میں جنوری 2025 سے عمل کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کی۔

اپوزیشن یعنی پاکستان تحریک انصاف نے اس بل پر اعتراضات کیے، مگر اسپیکر اسمبلی نے یہ وضاحت دی کہ یہ فیصلہ 1972 کے پارلیمانی قانون کے تحت کیا جارہا ہے جو کہ قانونی اور جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اراکین کی تنخواہوں اور انہیں ملنے والی سہولیات میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

بل کی منظوری کے بعد پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں 76 ہزار روپے سے بڑھ کر 4 لاکھ روپے ہو جائیں گی۔

جب کہ اس بل سے پہلے صوبائی وزیروں کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے تھی جو بل کی منظوری کے بعد اب 9 لاکھ 60 ہزار روپے ہوگئی ہے۔ اسی طرح اسپیکر کی تنخواہ پہلے ایک لاکھ 25 ہزار تھی جس میں آٹھ فیصد اضافہ کرکے اب 9 لاکھ 50 ہزار کردی گئی ہے جبکہ ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔

پارلیمانی سیکریٹری کی تنخواہ پہلے 83 ہزار تھی جو اب 4 لاکھ 51 ہزار روپے کردی گئی ہے۔ جب کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کے مشیر اور خصوصی معاون کی تنخواہیں بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تنخواہوں میں اضافے پر حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کے درمیان مختلف رائے سامنے آئیں ہیں۔ حکومت کے لوگ اس اضافے کو درست کہہ رہے ہیں جبکہ اپوزیشن اس کی مخالفت کر رہی ہے۔


’موجودہ مہنگائی میں تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ درست ہے‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن بی بی وڈیری نے کہا کہ ’ہم اسپیکر اسمبلی اور اپنی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے ہماری تنخواہیں بڑھائیں ہیں۔‘

انہوں نے مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے اراکین اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے کاروبار یا ذاتی کام نہیں کر سکتے، اس لیے یہ اضافہ ان کے لیے سہولت کا باعث ہوگا۔


’ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، قرضوں میں ڈوبا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں‘

پاکستان تحریک انصاف کی رکن نادیہ فاروق نے کہا کہ ’ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہم اس بل کی مخالفت کریں گے اور ہم نے مخالفت کی بھی۔ لیکن حکومت کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہی ہونا تھا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے احتجاج بھی کیا اور ڈیسک بجائے، لیکن حکومت کے پاس اکثریت ہونے کے وجہ سے بل کو منظور کروانا آسان تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نرگس فیض ملک نے کہا کہ ’عوام کو ریلیف نہیں دیا تو وزرا کی تنخواہیں بڑھانے کا کوئی حق نہیں ہے‘۔

یاد رہے کہ پچھلی بار 2019 میں تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تھا اور حکومت کے مطابق موجودہ حالات میں یہ تنخواہیں بہت کم اور ناکافی ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی صارفین پنجاب اسمبلی کے اراکین اور وزرا کی تنخواہوں میں اضافے پر تبصرے کرتے دکھائی دیے۔

اشوک سیون نے کہا کہ ’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے، آئی ایف ایم کے قرضوں اور شرائط کے تحت چل رہا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں‘۔



انایت اللہ نے کہا کہ ’لاکھوں لوگ بنیادی ضرورت کی چیزیں لینے سے قاصر ہیں لیکن ہماری وزیروں کی تنخواہیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، یہ سیلری اور ورکنگ کلاس لوگوں کی بے عزتی ہے‘۔




#پنجاب اسمبلی
#تنخواہیں
#پاکستان
#آئی ایم ایف