پاکستان کی وفاقی حکومت ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل متعارف کرکے ملک کو ڈیجیٹلائز کرنے کی کوششیں کررہی ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر صارفین حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ ’ملک میں پہلے ہی انٹرنیٹ کی رفتار سست ہے، اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے‘۔
وفاقی حکومت نے پیر کے روز قومی اسمبلی میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل پیش کیا۔ یہ بل وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس بل کی منظوری جون میں وفاقی کابینہ نے دی تھی۔
بل کا مقصد
بل کا بنیادی مقصد لینڈ ریکارڈ، ہیلتھ کارڈ، پیدائشی سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ سمیت دیگر ریکارڈز کو ایک سسٹم کے ساتھ جوڑنا ہے جس کے لیے ملک بھر کے تمام سرکاری اداروں سے ڈیٹا ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے گا۔
اس بل کے بعد کسی بھی شخص کی آئی ڈی، اس کے اثاثے اور موجودہ زندگی کا ڈیٹا ایک جگہ موجود ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بل متعارف کرانے کا مقصد پاکستان کو ایک ڈیجیٹل ملک میں تبدیل کرنا ہے، ڈیجیٹل معیشت تشکیل دینا ہے اور گورنرز کے نظام کو بھی مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنا ہے۔
اس بل میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی اور نیشنل ڈیجیٹل کمیشن جیسے ادراے قائم کیے جائیں۔ جس کا مقصد ہر پاکستانی شہری کی ڈیجیٹل شناخت قائم کرنا ہے تاکہ شہریوں اور حکومت کے ڈیٹا کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جا سکے۔
پاکستان نیشنل ڈیجیٹل کمیشن کیا ہے؟
اس بل کے تحت نیشنل ڈیجیٹل کمیشن بنایا جائے گا جو کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ہوگا جس میں چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ، وفاقی وزیر، چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین نادرا شامل ہوں گے۔
یہ کمیشن ملک میں شہریوں کے لیے ڈیجیٹل پالیسی اور حکمت عملی تیار کرے گا۔
پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کیا ہے؟
اس بل کے تحت ایک دوسرا ادارہ بنایا جائے گا۔ یہ نیشنل ڈیجیٹل کمیشن کی بنائی گئی پالیسیوں پر عمل کروانے کے لیے کام کرے گی اور مختلف اداروں کے ساتھ کوآرڈینیشن کرنے کے ساتھ ڈیجیٹل پراجیکٹس کی دیکھ بھال کرے گی۔
اس بل کے تحت ہر شہری کو اس کی ڈیجیٹل شناخت دی جائے گی جس میں ان کی صحت، جائیداد اور دوسری اہم معلومات شامل کی جائیں گی۔ اس کا مقصد شناختی کارڈ، زمین کے ریکارڈز ،ان کی پیدائش اور صحت کے سرٹیفکیٹ جیسے کاموں میں آسانی سے رسائی دینا شامل ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اس بل کے تحت ڈیجیٹل آئیڈینٹی کا نظام دبئی، انڈیا اور ایسٹونیا جیسے ملکوں کے ماڈلز کی طرح بنایا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے پر بحث
جب کہ دوسری طرف آئی ٹی کے کچھ ماہرین نے ڈیٹا کی پروٹیکشن پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کو اس نظام کو محفوظ بنانے کے لیے مزید وضاحت دینی چاہیے۔
بولو بھی تنظیم کی ڈائیریلٹر فریحہ عزیز نے ینی شفق کو بتایا کہ ’ایسے حالات میں کہ جب ملک میں انٹرنیٹ کی سپیڈ سے آئی ٹی انڈسٹری پہلے ہی اتنی متاثر پو چکی ہے وہاں پر حکومت کا ایسے بل پاس کروانا اور ڈیجیٹلائزیشن کی باتیں کرنا بے بنیاد لگتا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر بھی صارفین تبصرے کرتے دکھائی دیے، سینئر صحافی حامد میر نے ایکس پر لکھا کہ ’پارلیمنٹ ڈیجیٹل پاکستان جیسے ایک اور بل کی منظوری دینے جارہا ہے لیکن پارلیمنٹ انٹرنیٹ کی رفتار نہیں بڑھائے گا، یہ رفتار کسی اور کے کنٹرول میں ہے، انٹرنیٹ کی رفتار تیز بغیر اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو تحفظ دیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے‘۔
سینئر سیاستدان شیریں مزاری نے لکھا کہ ’پاکستان میں ڈیٹا کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں ہے۔ اس کے بغیر شہریوں کی حساس معلومات کو کیسے محفوظ رکھا جائے گا؟‘۔