انڈیا: کولکتہ میں خاتون ڈاکٹر کا ریپ کے بعد قتل، ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے

12:0915/08/2024, جمعرات
general.g16/08/2024, جمعہ
ویب ڈیسک
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ان کے چہرے موبائل فون کی روشنیوں میں جگمگا رہے تھے
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ان کے چہرے موبائل فون کی روشنیوں میں جگمگا رہے تھے

انڈیا کی ریاست بنگال کے شہر کولکتہ کے ایک اسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کو ریپ کے بعد قتل کردیا گیا جس کے بعد ملک بھر کے ڈاکٹرز احتجاجی مظاہرے کرکے انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔


کولکتہ کے آرجی کار میڈیکل کالج میں پچھلے ہفتے جمعے کو خاتون 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے بعد ملک بھر میں غم اور غصہ پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے ہڑتال کے بعد ملک گیر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ اس دوران کچھ میڈیکل سینٹرز میں طبی سہولت غیر معینہ مدت کے لیے روک دی گئی ہے۔


انڈیا کے 78ریں یوم آزادی بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کولکتہ کی سڑکوں پر بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی ریلی نکالی اور میڈیکل کالج کے پرنسپل سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔


ابتدائی طور پر یہ احتجاجی مظاہرے پُرامن تھے لیکن آر جی کار ہسپتال میں کچھ نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں میں لڑائی ہوئی اور توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ پولیس کو ان افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل کا استعمال کرنا پڑا۔



کولکتہ میں ڈاکٹر کے ساتھ کیا ہوا تھا؟


کولکتہ کے ایک سرکاری ٹیچنگ ہسپتال کے ہال میں 9 اگست کو 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کی لاش ملی تھی، میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان کے جسم پر زخم کے نشانات بھی پائے گئے۔


وکیل اور خواتین کے حقوق کی کارکن ورندا گروور نے الجزیرہ کو بتایا کہ متاثرہ ڈاکٹر کے والدین کو ہسپتال حکام نے پہلے بتایا کہ ان کی بیٹی نے خودکشی کر لی ہے۔ لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ڈاکٹر کے ساتھ ریپ اور قتل کی تصدیق ہوئی۔


منگل کو کولکتہ ہائی کورٹ نے کیس کو سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) منتقل کر دیا ہے۔


مقامی میڈیا کے مطابق پولیس نے سنجوئے رائے نامی ایک رضاکار کو گرفتار کرلیا ہے جو اکثر ہسپتال آتا تھا۔ ملزم کی وارڈ میں بآسانی آسکتا تھا اور پولیس کو اس کے خلاف ثبوت ملے ہیں۔


رپورٹس کے مطابق متاثرہ لڑکی کے والدین نے عدالت کو بتایا کہ انہیں شبہ ہے کہ یہ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا ہے۔


جب کہ انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ایک پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جائے وقوع سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون ڈاکٹر کو قتل کرنے کے بعد ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔


احتجاج کرنے والے ڈاکٹر عبدالوکیم خان نے اے این آئی نیوز ایجنسی کو بتایا ’مجرم کو سزائے موت دی جائے، ڈاکٹرز کی ہڑتال ختم کرنے کا مطلب کہ ہمیں کبھی انصاف نہیں ملے گا‘۔



’ہسپتال ہمارا پہلا گھر ہے، اب ہم وہاں بھی محفوظ نہیں‘


اسی ہسپتال میں 27 سالہ ٹرینی ڈاکٹر دیولینا بوس نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ساتھی داکٹر کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے وہ بھی خوفزدہ ہیں۔


’میں اس واقعے کے بعد صدمے میں ہوں۔ رات کونیند نہیں آتی۔ کل رات میرے پیروں میں شدید درد تھا تو میں تھوڑی دیر سونا چاہتی تھی لیکن میں اپنے ہی اسپتال میں نہیں سو سکتی جہاں میں 24 گھنٹے گزارتی ہوں۔ میں سکون سے سو بھی نہیں سکتی، آرام نہیں کرسکتی‘


کولکتہ کی 76 سالہ جونیئر ڈاکٹر مدھوپرنا نندی کہتی ہیں کہ ’ہسپتال ہمارا پہلا گھر ہے۔ ہم صرف آرام کرنے کے لیے اپنے گھر جاتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جس اسپتال میں ہم دن رات گزارتے ہیں وہ اتنا غیر محفوظ ہو سکتا ہے۔ اب اس واقعے کے بعد ہم خوفزدہ ہیں‘۔


ایک اور ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کبھی کبھار میں مریضوں یا نرسوں کے ٹوائلٹس استعمال کرتی ہوں۔ جب میں دیر سے کام کرتا ہوں تو میں کبھی کبھی وارڈ میں مریض کے خالی بستر پر یا ویٹنگ روم میں سوجاتی ہوں‘۔


وہ کہتی ہیں کہ وہ اس کمرے میں بھی غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں جہاں وہ 24 گھنٹے کی شفٹوں کے بعد آرام کرتی ہے۔


جمعہ کو ہونے والا واقعہ نیا کیس نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی انڈیا میں ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والا واقعہ ممبئی کے ایک نامور اسپتال کی نرس ارونا شانباگ کا ہے، جسے 1973 میں وارڈ اٹینڈنٹ نے ریپ کے بعد گلا گھونٹ دیا جس کے بعد وہ 42 سال بعد کومہ میں چلی گئیں اور 2015 میں انتقال کر گئیں۔ حال ہی میں کیرالہ میں وندنا داس نامی 23 سالہ میڈیکل انٹرن کو پچھلے سال ایک نشے میں دھت مریض نے سرجیکل کینچی سے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔











#India
#Rape
#Protest