واقعہ کیسے پیش آیا؟ اور ہندو مذہبی گرو 'بھولے بابا' کون ہیں؟
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع ہاتھرس میں ایک مذہبی اجتماع کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے 120 لوگ ہلاک ہوگئے جس میں اکثریت خواتین کی ہے۔
یہ ہلاکتیں انڈیا کی حالیہ برسوں کا بدترین سانحہ ہے۔ پولیس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندو مذہبی گرو 'بھولے بابا' کے لیے ایک مذہبی اجتماع میں 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ اس دن لوگوں کی تعداد تین گنا سے زیادہ تھی۔
مرنے والوں میں 112 خواتین اور 7 بچے شامل ہیں۔ ایک سینئر پولیس افسر شلبھ ماتھر نے کہا کہ بھگدڑ میں زخمی ہونے والے 80 سے زیادہ لوگوں کو ہسپتالوں میں داخل ہیں۔
پولیس نے مذہبی اجتماع کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ لیکن ایف آئی آر میں گرو ساکار وشوا ہری کا نام نہیں ہے جو ’بھولے بابا‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
حکام کو نہیں معلوم کہ بھولے بابا کہاں ہے، پولیس نے ان کی تلاش شروع کر دی ہے۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
بھولے دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں، دلت انڈیا میں ایک اقلیت ہیں جن کی آبادی لگ بھگ 20 کروڑ ہے جو تاریخ میں ہندو طبقاتی نظام میں ’نچلی ذات‘ سے ہیں جن میں زیادہ تر غریب لوگ ہیں۔
بھولے بابا کا اصل نام سورج پال سنگھ بتایا جاتا ہے، ان کا تعلق اتر پردیش کے ضلع کاس گنج کی پٹیالی تحصیل کے بہادر نگر گاؤں سے ہے، وہ اپنے پیروکاروں کو اپنے اندر بھگوان تلاش کرنے کا کہتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے سے پیروکاروں کی پریشانیاں اور اور بیماریاں دور کرنے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔
ان کے پیروکار اترپردیش کے مختلف حصوں سے آتے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ جب ’بھولے بابا‘ جانے لگے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پاؤں کی دھول حاصل کرنے کے لیے ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگی اور بھگدڑ مچ گئی۔
اس دوران کئی لوگ کچل جانے اور دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ بہت سے لوگ کیچڑ والے میدان پر پھسل گئے، جس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اس دن بارش بھی ہوئی تھی جس سے لوگ پھسل کر گر گئے۔
مرنے والوں میں کون کون شامل ہے؟
اتر پردیش کے وزیر تعلیم سندیپ کمار سنگھ لودھی نے تصدیق کی کہ واقعے میں تقریباً 121 افراد ہلاک ہوئے۔
سینئر پولیس افسر شلبھ ماتھر نے بتایا کہ 80 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ پولیس سربراہ پرشانت کمار نے بتایا کہ مرنے والوں میں 112 خواتین بھی شامل ہیں۔
چیف سکریٹری منوج کمار سنگھ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اب تک اس واقعے کے نتیجے میں 7 بچوں کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے۔
عینی شاہدین نے کیا بتایا؟
تقریب کے دوران ڈیوٹی پر موجود ایک شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں نے کچھ خواتین کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن میں بھی بے ہوش ہوگیا اور ہجوم کے نیچے کچلا گیا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ پھر کیا ہوا، بس اتنا یاد ہے کہ کسی نے مجھے ہجوم سے باہر نکالا اور پھر میں نے ہسپتال میں آنکھ کھولی‘۔
بھگدڑ کی جگہ کے قریب پھولرائی مغل گڈی گاؤں میں رہنے والے 45 سالہ ہوری لال نے کہا کہ ’کھیت کے ساتھ والی مرکزی شاہراہ لوگوں اور گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی، یہاں بہت زیادہ لوگ موجود تھے۔ جب لوگ ایک طرف کی جانب گرنے لگے اور کچلنے لگے تو وہاں ہر طرف افراتفری مچ گئی۔‘
ریاست اتر پردیش کے علی گڑھ شہر کے ڈویژنل کمشنر چترا وی نے ابتدائی طور پر کہا کہ ’بھگدڑ اس وقت مچی جب لوگ پنڈال سے باہر نکل رہے تھے‘۔
35 سالہ کسان رام نواس نے بتایا کہ ان کی 54 سالہ بھابھی بھگڈر مچ جانے کے بعد لاپتا ہوگئی ہیں، ’مجھے وہ کہیں نہیں ملی، ہسپتال میں بھی نہیں ہے، ہم صرف امید کرسکتے ہیں کہ وہ زندہ ہو‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے مرنے والوں کے لواحقین کو 2 ہزار 400 ڈالر اور زخمیوں کو 600 ڈالر کے معاوضے کا اعلان کیا۔
انڈیا میں ہجوم میں بھگدڑ مچ جانے کے واقعات کی ایک تاریخ
انڈیا میں ہجوم کے دوران بھگدڑ مچ جانے اور کچلنے کے واقعات عام ہیں، ماضی میں ہونے واقعات کی فہرست درج ذیل ہے: