سوات: توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے سیاح کو قتل کرکے لاش کو آگ لگا دی

23:5520/06/2024, الخميس
جنرل11/07/2024, الخميس
ویب ڈیسک
جمعرات کی رات سوات کے علاقے مدین میں بدامنی کے مناظر
جمعرات کی رات سوات کے علاقے مدین میں بدامنی کے مناظر

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ڈسٹرکٹ سوات میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہجوم نے ایک سیاح کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کردیا اور اس کے جسم کو آگ لگا دی۔


یہ واقعہ 20 جون کو سوات کے علاوہ مدین میں پیش آیا تھا، ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ نے بتایا قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کرنے پر پولیس نے مشتبہ شخص کو جیل میں بند کردیا تھا لیکن مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کیا، پولیس اسٹیشن اور موبائل کو آگ لگائی اور سیاح کو اپنے ساتھ زبردستی لے گئے اور تشدد کا نشانہ بنایا۔


انہوں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نےسیاح کو ہلاک کرکے اس کے جسم کو آگ لگا دی تاہم مزید تفصیلات کا انتظار ہے اور واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔



یہ سیاح سیالکوٹ سے چھٹیاں منانے سوات کے علاوہ مدین آیا تھا، یہ علاقہ کالام، بحرین اور وادی سوات کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے، اور صوبائی دارالحکومت پشاور سے تقریباً 245 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔


سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ مشتعل ہجوم سڑک کے بیچ میں ایک لاش کو آگ لگا رہے ہیں اور ساتھ ہی پولیس اسٹیشن کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔


ڈی پی او نے بتایا کہ مدین میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی اور صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی لیکن


مدین میں توڑ پھوڑ اور تشدد کے دوران 11 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بیشتر کی عمریں 13 سال سے 24 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔


ریجنل پولیس افسر (ملاکنڈ ڈویژن کے پولیس سربراہ) علی محمد نے مدین میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مدین واقعے کے دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔


انہوں نے بتایا کہ ایک مقدمہ مقتول کے خلاف توہین مذہب کا درج کیا گیا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ پولیس سٹیشن میں تھوڑ پھوڑ اور سامان کو نقصان پہنچانے پر مشتعل افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔


علی امین گنڈا پور کا نوٹس


پی ٹی آئی کی جانب سے پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے سیاح کی ہلاکت کا نوٹس لے کر آئی جی سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔


رپورٹ طلب کرتے ہوئے انہوں نے پولیس چیف کو صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔



سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے واقعے پر افسوس کا اظہا کرتے ہوئے اسے ’پاگل پن‘ قرار دیا۔



مارا جانے والا شخص کون تھا؟


سوات میں توہین مذہب کے الزام میں مارا جانے والے شخص کی والدہ کا ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے، ویڈیو میں والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا سلیمان روزگار کے لیے بیرون ملک گیا تھا، اس کے والد کا 30 سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔


انہوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان واپس آیا تو اس نے یہاں شادی کی لیکن پھر لرائی جھگڑے شروع ہوگئے اور پھر اس کے حصے کی جائیداد اسے دے دی اور ہم نے اس سے تعلق ختم کرلیا۔


والدہ نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کے بیٹے کا ڈیڑھ سال سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ’بیٹے نے جو کچھ کیا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘



پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں پرتشدد واقعات میں اضافہ


پاکستان میں توہین مذہب کا الزام لگا کر اس پر تشدد اور ہلاک کرنے کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں، ان واقعات میں اس وقت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا جب جنرل ضیا الحق کے دور میں توہین مذہب کے جرم سزائے موت کا اعلان کیا گیا تھا، 1927 اور 1986 کے درمیان توہین مذہب کے صرف 14 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن قانون میں تبدیلیوں کے بعد ان اعدادوشمار میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


1987 سے 2022 کے درمیان کم از کم 2120 افراد پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔


پچھلے مہینے پولیس نے سرگودھا میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں مشتعل لوگوں سے ایک مسیحی شخص کی جانب بچائی تھی، لیکن واقعے کے 9 دن بعد وہ شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا۔


2022 میں ضلع خانیوال کے ایک گاؤں میں مبینہ بے حرمتی پر ایک بوڑھے شخص کو ہجوم نے پتھروں سے مار کر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ہلاک کر دیا تھا۔



#Swat
#Blasphemy
#Pakistan