بائیڈن انتظامیہ نے حال ہی میں یوکرین کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ روس پر حملوں کے لیے لانگ رینج میزائل سسٹم (طویل فاصلے تک مار کرنے والے) استعمال کر سکتا ہے، امریکہ کے اس فیصلے کی وجہ سے جنگ میں شدت آگئی ہے۔ یوکرین کے رہنما ایک عرصے سے واشنگٹن کو اس معاملے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن رپورٹس کے مطابق روس کی جانب سے نارتھ کوریا کی فوجوں کو جنگ میں استعمال کرنے کے بعد بائیڈن نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ بائیڈن یوکرین کی مکمل فوجی حمایت کے وعدے کو پورا کرنے کے لیے پر عزم ہے، وہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، ممکنہ مذاکرات میں یوکرین کا پلڑا بھاری ہو۔ دوسری جانب روس نے اپنا دفاعی اور جوہری حکمت عملیاں تبدیل کردی ہیں، تاکہ مذاکرات سے قبل اپنی پوزیشن مضبوط بنا سکے۔ لیکن دونوں جانب سے مسلسل بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی سے لگتا ہے کہ لڑائی جلدی ختم نہیں ہوگی۔
نومنتخب صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یوکرین جنگ کے خاتمے اور غیر مشروط امریکی امداد بند کرنے کے وعدوں پر زور دیا۔ امریکی عوام میں یوکرین کو امداد دینے کے حوالے سے کم ہوتی حمایت کے پیش نظر ٹرمپ نے اس تنازعے کو ملکی معیشت سے جوڑ دیا۔ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ پر امریکی سرحدوں کی حفاظت کے بجائے یوکرین کی حفاطت کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا۔ اور یوکرین کو دی جانے والی امداد کو قرضوں میں بدلنے کی تجویز بھی پیش کی تاکہ امریکی ٹیکس دہندگان کی مشکلات میں کمی لائی جاسکے۔
رپورٹس کے مطابق صدر منتخب ہوتے ہی ٹرمپ نے پیوٹن سے بات کی اور جنگ کو مزید نہ بڑھانے پر زور دیا۔ ٹرمپ نے ملاقات سے انکار نہیں کیا، لیکن روس کے سرکاری میڈیا پر میلانیا ٹرمپ کی ماڈلنگ کے دنوں کی فوٹیجز چلانے سے یہ افواہیں گردش کرتی رہی کہ دونوں رہنماؤں میں کشیدگی ہے۔ کریملن ذرائع نے ملاقات کے امکان کو یکسر مسترد کردیا ہے، لیکن ٹرمپ کا صدارت سنبھالتے ہی مذاکرات شروع کرنے کا عزم واضح ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 20 جنوری کو ٹرمپ کے باضابطہ طور پر صدارت سنبھالنے سے پہلے بائیڈن، زیلنسکی اور پیوٹن کی توجہ اپنی اپنی پوزیشنز مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔
بائیڈن کی طرف سے روسی اسلحہ ڈپو اور سپلائی لائنز کو نشانہ بنانے کے لیے یوکرین کو امریکی ساختہ اے ٹی اے سی ایم ایس (190 میل رینج والے میزائل) اور برطانوی اسٹارم شیڈو (155 میل رینج والے میزائل) سسٹمز کے استعمال کی اجازت دینا جوہری جنگ کے خطرے کو بڑھا رہا ہے۔ روس کی نئی جوہری پالیسی کے مطابق اگر روس کی علاقائی سالمیت کو کسی قسم کت فوجی خطرات ہیں تو اسے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حق حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یوکرین کو اسلحہ فرہم کرنے والے ممالک کو بھی اس تنازعے میں فریق بنایا گیا ہے جس سے ایک جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
اگرچہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس نے جوہری تصادم سے گریز کیا ہے، لیکن یوکرین میں مسلسل بڑھتی کشیدگی سے جنگ ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں دیتے۔ اگر روس نے جنگ میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا تو جنگ کی نوعیت یکسر بدل جائے گی اور مغرب اس کا جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اگر روس ایسے اقدام سے باز رہتا ہے تب بھی وہ اپنی نئی دفاعی حکمت عملی کے تحت یوکرین کے حامی نیٹو ممالک کو نشانہ بنا سکتا ہے جس سے تنازعے کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی۔
فِن لینڈ اور سوئیڈن کی انٹرنیٹ کیبلز میں حالیہ رکاوٹیں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ روس یوکرین کی حمایت کرنے والے نیٹو ممالک کو بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں کا مقصد یورپی ملکوں کو یوکرین کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کے لیے مجبور کرنا ہے، خصوصاً اُس وقت جب ٹرمپ کی صدارت کی صورت میں یوکرین کے لیے امریکی امداد بھی بند ہونے کا امکان ہے۔ امریکی حمایت کے بغیر، یورپ کی مدد ڈگمگا سکتی ہے، جس سے روس کی حکمت عملی مزید مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر روس نے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا تو نیٹو اور امریکہ کے پاس اس کا جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا اور یہ پہلے سے کمزور پڑتے مغربی اتحاد میں مزید دراڑیں ڈالنے کا باعث بنے گا۔
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ کی مذاکرات کی حکمت عملی کا انحصار روس کے زیادہ تر مطالبات کو جائز تسلیم کرنے اور اس طرح پیوٹن کو جنگ کے خاتمے پر آمادہ کرنے پر ہوگا۔ لیکن ایک جامع امن معاہدے کے بجائے روس فی الحال ڈیڈ لاک کو ترجیح دے گا۔ اگرچہ ٹرمپ خود کو ایک ڈیل میکر کی صورت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، تاہم روس کسی خاطر خواہ فائدے کے بغیر اپنے مقاصد سے دستبردار نہیں ہوگا۔ اسی طرح مغرب یوکرین پر علاقائی نقصانات قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا جس کے نتیجے میں کوئی بھی معاہدہ نازک ثابت ہوگا۔
تیسری عالمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات کے ساتھ، امریکی امداد پر ٹرمپ کا اثر و رسوخ دونوں فریقین کو مذاکرات کے لیے آمادہ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ کوشش بھی ناکام رہی تو ٹرمپ کو دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوئی اور حکمت عملی اپنانی پڑے گی، یا پھر بائیڈن کی پالیسیز کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ جاری رکھنا پڑے گا۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔