کیا ڈیموکریٹک پارٹی اپنی شکست کا ’پوسٹ مارٹم‘ کرے گی یا اُن کا پہلے سے کمزور اتحاد ٹوٹ جائے گا؟

07:4621/11/2024, Perşembe
جنرل21/11/2024, Perşembe
عبداللہ مُراد اوغلو

جوبائیڈن نے 2020 میں 8 کروڑ 10 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 5 نومبر کو کملا ہیرس کو تقریباً 7 کروڑ ووٹ ملے جبکہ ٹرمپ کو 2024 میں تقریباً اتنے ہی ووٹ ملے ہیں جتنے 2020 میں ملے تھے۔ ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی نے وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے دونوں ایوان جیت لیے۔ انتخابی نتائج میں ڈیموکریٹس کےلیے سب سے زیادہ پریشان کن سات اہم سوئنگ ریاستوں میں شکست تھی۔ انہیں پورا یقین تھا کہ وہ ’بلیو وال‘ (نیلی دیوار) سے جانی جانے والے اسٹیٹس پنسلوینیا، مشی گن، وسکونسن سے جیت جائیں گے اور کملا ہیرس

خبروں کی فہرست

جوبائیڈن نے 2020 میں 8 کروڑ 10 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 5 نومبر کو کملا ہیرس کو تقریباً 7 کروڑ ووٹ ملے جبکہ ٹرمپ کو 2024 میں تقریباً اتنے ہی ووٹ ملے ہیں جتنے 2020 میں ملے تھے۔ ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی نے وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے دونوں ایوان جیت لیے۔

انتخابی نتائج میں ڈیموکریٹس کےلیے سب سے زیادہ پریشان کن سات اہم سوئنگ ریاستوں میں شکست تھی۔ انہیں پورا یقین تھا کہ وہ ’بلیو وال‘ (نیلی دیوار) سے جانی جانے والے اسٹیٹس پنسلوینیا، مشی گن، وسکونسن سے جیت جائیں گے اور کملا ہیرس صدر بن جائیں گیں، لیکن ٹرمپ نے ڈیموکریٹس کی نیلی دیوار کو توڑ دیا۔

معاشی اور امیگریشن مسائل نے انتخابی نتائج میں اہم کردار ادا کیا۔ بائیڈن۔ہیرس حکومت کی جانب سے غزہ پر حملے کے لیے اسرائیل کی حمایت کے بعد یہ تو طے تھا کہ عرب۔امریکی آبادی والی ریاستیں اُن کے ہاتھ سے جائیں گی۔ 1968 میں بھی نائب امریکی صدر ہیوبرٹ ہمفری کو اسی طرح ویتنام جنگ کا خمیازہ الیکشن میں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا۔ اب بھی ویسی ہی کہانی ہے۔ روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی عرب امریکی اور نوجوان ووٹرز نے اسرائیل کے لیے غیرمشروط امریکی حمایت کی پالیسی کی مخالفت کی اور بائیڈن اور ہیرس کو بار بار وارننگ دی۔ نیو کنزرویٹیوز اور اینٹی ٹرمپ ری پبلکنز پر بھروسہ کرتے ہوئے کملا ہیرس نے ان وارننگ کو نظر انداز کیا، اس بات کو بھی فراموش کردیا کہ سوئنگ ریاستوں میں معمولی فرق بھی الیکشن میں بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ غفلت ڈیموکریٹس کو بہت مہنگی پڑی۔ کچھ عرب امریکیوں نے گھر پر رہنا بہتر سمجھا، کچھ نے احتجاجاً ٹرمپ کو ووٹ دیا جبکہ ایک بڑی تعداد نے گرین پارٹی کے امیدوار جِل اسٹیِن کا انتخاب کیا۔ عرب امریکیوں کی سب سے زیادہ تعداد ریاست مشی گن میں ہے جہاں 2020 میں جو بائیڈن کی جیت کا مارجن ایک لاکھ 54 ہزار تھا۔ کملا ہیرس کو یہاں تقریباً 78 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست ہوئی جبکہ گرین پارٹی اور دیگر امیدواروں کے مجموعی ووٹ ایک لاکھ سے زیادہ تھے۔

اسرائیل کے لیے غیر مشروط امریکی حمایت پر عرب امریکیوں اور دیگر ووٹرز نے پہلے بائیڈن اور پھر ہیرس کے خلاف احتجاج کیا۔ پورے امریکہ کی یونیورسٹیز میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے مگر کملا ہیرس کا جواب واضح تھا، ’اسرائیل کی حمایت نہیں چھوڑی جائے گی‘۔ مشی گن کے نتائج بائیڈن-ہیرس حکومت کے اسرائیل سے متعلق مؤقف کی عوام میں ناپسندیدگی کا ثبوت ہیں۔

ذرا تصور کریں ایک کمپنی جن کے پروڈکٹس سے کسٹمرز غیر مطمئن ہیں اور وہ کمپنی اُن کی شکایت کو نظر انداز کررہی ہو۔ جب گاہکوں کی شکایات احتجاج میں بدل جائے تو کمپنی ردعمل دے کہ ’ہم آپ کے غصے کو سمجھ سکتے ہیں مگر ہماری پراڈکٹ ایسی ہی رہیں گی‘۔ پھر گاہکوں کے پاس اُس کمپنی کے پاس دوبارہ نہ جانے جت سوا کیا آپشن ہوگا؟

کملا ہیرس کو اپنے ووٹرز سے اندھی وفاداری کی امید رکھتی تھیں۔ مگر سیاست کے میدان میں ’آواز بلند کرنا‘ یا ’ساتھ چھوڑ جانا‘ دو طاقتور آپشز ہیں۔ ووٹرز کے ساتھ چھوڑ جانے کے خطرے کو نظر انداز کرکے ہیرس نے ٹرمپ کو وہ رسی تھما دی جس سے ڈیموکریٹس کو پھانسی ملی۔

البرٹ ہرشمین نے اسی موضوع پر اپنی کتاب میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جب ’ایگزٹ‘ (یعنی باہر جانے) آپشن موجود ہو تو آواز طاقتور ہوجاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اداروں کے نظام کو چلانے کے لیے آواز کے کردار کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ ہیرس کے کیریئر میں ان کا اور ڈیموکریٹک پارٹی کا ووٹرز کی آوازوں پر کان نہ دھرنا ایک بڑی غلطی تھی۔

ڈیموکریٹس نے نوجوان، سیاہ فام اورلاطینی ووٹرز کی بڑی تعداد کی حمایت بھی کھوئی، یہ وہ گروپس ہیں جنہیں ڈیموکریٹس نے غیر اہم سممجھا تھا۔ بائیڈن نے 2020 میں 92 فیصد سیاہ فام اور 65 فیصد لاطینی ووٹرز کے ووٹ حاصل کیے۔ 2024 تک ٹرمپ نے 32 فیصد سیاہ فام اور 46 فیصد لاطینی ووٹ چھین لیے، اس طرح انہیں مختلف نسلی اور لسانی گروپوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔

ایک اور اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ امریکی ورکنگ کلاس کا رجحان ڈیموکریٹک پارٹی سے ہٹ کر ٹرمپ کی ری پبلکن جماعت کی طرف ہوگیا۔ ڈیموکریٹس جو پہلے ہی سفید فام ورکنگ کلاس کی اکثریت کی حمایت کھوچکے تھے سیاہ فام اور لاطینی ورکرز کے ووٹوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔

جیتنے والے کی کامیابی کے ساتھ ہارنے والے کی شکست کی وجوہات کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔ کیا ڈیموکریٹک پارٹی اپنی شکست کو سمجھنے کے لیے پوسٹ مارٹم کرے گی یا ساتھ چھوڑ جانے والے ووٹرز پر الزام دھر کر بات ختم کر دے گی؟ ڈیموکریٹس کے لیے پہلا چیلنج اندرونی اختلافات سے نمٹنا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کے آنے سے ڈیموکریٹس اپنی غلطیاں ٹھیک کرنے پر مجبور ہوں گے یا اس سے ان کا پہلے سے کمزور اتحاد ٹوٹ جائے گا؟


#جوبائیڈن
#کملا ہیرس
#ڈونلڈ ٹرمپ
#امریکا
#امریکا صدارتی الیکشن2024