چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک خان (عمران خان) ہمارے پاس نہیں آ جائیں گے ہم اس مارچ کو ختم نہیں کریں گے۔
بشریٰ بی بی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پشاور سے اسلام آباد تک مارچ کرنے والے قافلے سے خطاب کیا ہے۔
بشریٰ بی بی کا کہنا تھا میں اپنی آخری سانس پر کھڑی رہوں گی، آپ لوگوں نے بھی میرا ساتھ دینا ہے، آپ لوگ میرا ساتھ نہیں دیں گے تب بھی میں کھڑی رہوں گی کیونکہ یہ صرف میرے شوہر کی بات نہیں بلکہ یہ اس ملک اور اس ملک کے لیڈر کی بات ہے۔
عمران خان کی تیسری اہلیہ اور پاکستان کی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں کی پہلی بار قیادت کررہی ہیں۔
شادی سے قبل وہ عمران خان کی روحانی پیشوا (مرشد) بھی رہ چکی ہیں۔ اور انہیں پہلے بشریٰ مانیکا کے نام سے جانا جاتا تھا۔
جنوری میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو جیل کی سزا سنائی گئی اور دوران اقتدار سرکاری تحائف (جس میں پرفیوم، ڈنر سیٹ اور ہیرے کے زیورات) سے مبینہ طور پر فائدہ اٹھانے کے الزام میں دونوں کو 20، 20 لاکھ ڈالر سے زائد جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
عمران خان سرکاری تحائف کی غیر قانونی فروخت کے مقدمے میں پچھلے سال اگست سے جیل میں قید ہیں۔عمران خان اپنے دور میں مشہور کرکٹر بھی رہ چکے ہیں، وہ 2018 میں پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیے گئے جس کا ذمہ دار وہ پاک فوج کو ٹھہراتے ہیں۔
71 سالہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان پر لگے تمام الزامات سیاسی ہیں۔ اگرچہ انہیں جیل میں قید ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی وہ ملک کی سیاست میں اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔
ان کا نام خبروں اور عدالتی مباحثوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں میں بھی گردش کرتا رہتا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے سپورٹرز کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔
لاہور: عمران خان کو 9 مئی کے فسادات سے متعلق 8 مقدمات کا سامنا ہے جن کی ضمانت ابھی باقی ہے۔
راولپنڈی: اُن کے خلاف 28 ستمبر اور 5 اکتوبر کے احتجاج کے دوران انسداد دہشت گردی کے 3 نئے مقدمات درج ہیں۔
اسلام آباد: مجموعی طور پر 62 مقدمات درج، 15 میں ضمانت ملنا باقی ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین پتھر پھینک رہے ہیں جس سے 14 اہلکار زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر آنسو گیس پھینکنے اور لاٹھی چارج کرنے کا الزام لگایا۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ پیر کی صبح اسلام آباد بھر میں درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، جن میں ڈی چوک کے قریب سے کم از کم 4 مظاہرین بھی شامل ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ پولیس ڈی چوک کی سخت نگرانی کر رہی ہے اور ڈی چوک میں داخل ہونے والوں کو بھی گرفتار کرے گی۔