یونیورسٹی کے دنوں میں کافی ہاؤسز میں میرا بہت زیادہ وقت گزرتا تھا، مجھے آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ اتنے شور ہنگامے کے دوران بھی میں نے بھرپور توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا۔ مگر کبھی بھی کافی ہاؤسز کے کھیلوں جیسا کہ بیکگیمن یا تاش کبھی نہیں سیکھ سکا، اس کے بجائے میں کچھ دوستوں کے ساتھ شطرنج کھیلا کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو مجھے بہت پسند تھا، میں اسے انسانی ذہن کی عظیم ترین ایجاد سمجھتا تھا۔ آج بھی مجھے اس کھیل کا مزہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے تو میں ضائع نہیں کرتا۔
میرے کچھ دوست پوکر کھیلنا پسند کرتے تھے۔ وہ عجیب اور نہ سمجھ آنے والے الفاظ استعمال کرتے تھے، ان میں ’بلف‘ سب سے نمایاں لفظ تھا۔ اگرچہ مجھے کبھی پوکر کھیلنا نہیں آیا مگر آہستہ آہستہ میں یہ ضرور سمجھ گیا کہ بلفنگ ہوتی کیا ہے۔ جھوٹے دعوؤں سے اپنے مخالف کو دھوکہ دینا ’بلف‘ کہلاتا ہے۔ بلف میں کامیابی کا دارومدار دوسری پارٹی کو ہار ماننے پر مجبور کرنا ہے جس سے وہ جیتا ہوا گیم ہار جائے یعنی کسی ہارتے ہوئے کھلاڑی کو گیم کا پانسہ اپنے حق میں پلٹنے کا موقع مل جائے۔
بلفنگ دراصل دوسروں کو دھوکے میں رکھ کر جیتنے کی ایک حکمت عملی ہے یعنی دوسری پارٹی پر یہ ظاہر کرنا کہ آپ کی پوزیشن مضبوط ہے اور آپ رسک لے رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے الٹ ہے۔ یہ جوئے کی طرح ہے، اگر آپ کا بلف کام کر گیا تو آپ جیت جائیں گے۔ اگر یہ ناکام رہا تو ہار یقینی ہے۔
اس سے میرے ذہن میں ایک اور کھیل ’رشین رولیٹ‘ ( Russian roulette) کا خیال آیا۔ پوکر کے برعکس اس کھیل میں ہار کا مطلب یقینی موت ہے۔ اس کھیل میں ایک ریوالور میں ایک ہی گولی ڈال کر اسے گھما دیا جاتا ہے اور کھلاڑی کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔ جو اسے اپنے سر کی طرف کر کے ٹریگر دبا دیتا ہے۔ اگر گولی چل جائے تو وہ مر جاتا ہے اگر نہیں چلے تو وہ بچ جاتا ہے اور ریوالور اگلے کھلاڑی کی طرف بڑھا دیتا ہے جس کی موت کا خطرہ پہلے کھلاڑی کے مقابلے میں زیادہ ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خونی کھیل جنگ کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ کا شکار روسی سپاہیوں کے درمیان شروع ہوا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اسی طرح کا ایک کھیل لبنان میں خانہ جنگی کے دوران پیرا ملٹری فوجی گروپوں کو بھی کھیلتے دیکھا گیا۔
پوکر اور رشین رولیٹ، دونوں کھیل یاد آنے کی وجہ یوکرین-روس تنازع ہے۔ یہ جنگ اپنے آغاز سے پوکر کی طرح لڑی گئی۔ یورپ اور مغرب نے بڑے دعوؤں کے ذریعے کشیدگی کو بڑھایا مگر روس کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ سے گریز کیا، اس کے بجائے انہوں نے یوکرین کو نیٹو کی لڑائی کے لیے بطور پراکسی استعمال کیا۔ ظاہر ہے اس کی قیمت یوکرین کو یہ بھگتنا پڑی جو آج تباہ و برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر اور لاپتہ ہوگئے، شہر ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے۔ اب بھی توقعات کے برعکس روس کو ہرایا نہیں جاسکا۔ اس کے بجائے اس نے معیشت کو جنگ کے رخ پر ڈھال لیا ہے، چین اور انڈیا کی مدد سے روس پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ابھرا۔ مگر اپنے ہزاروں لوگوں کی جان سمیت اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
روس نے شروع میں کچھ بڑی غلطیاں کیں جن میں اندرونی اختلافات بشمول ویگنر اور اس کی تنظیم پروگزن بھی شامل ہے (پروگزن کرائے کے فوجیوں کی ایک روسی تنظیم ہے جو یوکرین اور شام سمیت مختلف ممالک میں روسی مفادات کے لیے لڑتی ہے)۔ مگر بعد میں سنبھل کر یوکرین سے ہونے والے حملوں کا دفاع کیا اور 20 فیصد سے زائد یوکرین پر قبضہ کرلیا۔ حال ہی میں روس نے تیزی دکھاتے ہوئے تھکی ہاری یوکرینی فوج کی مزاحمت کو آخری حدوں تک دھکیل دیا۔ اگر یہ رہی سہی مزاحمت بھی دم توڑ گئی تو روس آدھے سے زیادہ یوکرین پر قبضے کے اپنے بنیادی مقصد میں کامیاب ہوجائےگا۔ پیوٹن جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر مذاکرات سے پہلے جیت کی پوزیشن میں آنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مطالبات مؤثر طور پر منواسکیں۔
دوسری جانب جنگ کے خاتمے کے لیے پوٹن۔ٹرمپ پارٹنرشپ سے متعلق افواہیں بھی گرم ہیں۔ ویسے تو ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد روس کی جانب سے کوئی گرم جوشی ظاہر نہیں کی گئی اور پوٹن نے بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ٹرمپ کی جیت سے فوری طور پر امن نہیں ہوگا۔ الیکشن سے پہلے ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی ملاقات کی خبریں بھی سامنے آئیں جس میں ٹرمپ پر جنگ جاری رکھنے کےلیے اصرار کیا گیا۔ ٹرمپ نے اگر شروع میں کچھ مزاحمت کی بھی ہوگی تو ممکنہ طور پر بار بار قاتلانہ حملوں کے ذریعے انہیں تعاون پر مجبور کیا گیا۔
نیٹو کی جانب سے یوکرین کو روس پر حملوں کے لیے لانگ رینج میزائل استعمال کرنے کی اجازت کے معاملے پر ٹرمپ کی خاموشی اور پھر اس کی تائید کشیدگی میں خطرناک اضافے کا اشارہ ہے۔ روس نے اس کے ردعمل میں اپنے جوہری پالیسی میں پہلی بار تبدیلی کی اور پہلی بار یوکرین کے خلاف بین البراعظمی میزائل استعمال کیا۔ کریملن نے دنیا بھر میں امریکی فوجی اڈوں پر ایٹمی حملوں کی دھمکی دی اور کہا کہ ممکنہ طور پر لندن، پیرس، برلن حتیٰ کہ امریکہ کے مشرقی ساحلی شہروں کو دس سے پندرہ منٹ میں دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا۔
دنیا تباہی کے دہانے پر ہے، نیٹو نے روس کی دھمکی کو بلف (پوکر کی اصطلاح) سمجھتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ پوکر کی اصطلاح میں نیٹو نے روس کی وارننگز کو چیلنج کیا اور مزید دھمکیوں یا چالوں کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ یہ تنازع اب رشین رولیٹ کا خونی کھیل شروع ہوگیا ہے، کسی کو معلوم نہیں پہلے ٹریگر کون دبائے گا اور اس کے بعد کیا نتیجہ نکلے گا۔
اگرچہ جنگ کے خاتمے کی باتیں ہورہی ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ ان کا مقصد امن پر بات چیت سے پہلے روس کو اتنا کمزور کردینا ہے کہ اس کےلیے سنبھلنا ممکن نہ رہے۔ تاہم روس کی جانب سے ایسی شرائط قبول کرنے سے انکار واضح ہے۔
دو صدیوں تک باقی رہنے والی صنعتی تہذیب کا زوال دیکھ رہے ہیں۔ یہ زوال صرف معاشی بحران، مہنگائی، بےروزگاری یا پیداواری نقصان تک محدود نہیں، بلکہ اس تہذیب کو مضبوط کرنے والے ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ عجیب تضاد ہے کہ سائنس، فلسفے اور آرٹ کی تہذیب نے انسانیت کو پوکر اور رشین رولیٹ تک محدود کردیا ہے، سمجھ نہیں آتا ہمیں رونا چاہیے یا ہنسنا چاہیے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔