حزب اللہ، لبنان کے مسائل کا حل ہے یا خود ایک مسئلہ؟

09:043/10/2024, Perşembe
جی: 3/10/2024, Perşembe
طہٰ کلنچ

14 فروری 2005 کی صبح کو لبنانی دارالحکومت بیروت میں مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ کے چند ہولناک ترین واقعات میں سے ایک پیش آیا تھا، سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کو ان کے قافلے پر ایک دھماکے میں ہلاک کردیا گیا۔ رفیق حریری سعودی عرب سے قریبی تعلقات کی وجہ سے مشہور تھے اور لبنان میں 1975 سے جاری خانہ جنگی (سِول وار) کے خاتمے کیلئے 1989 میں طے پانے والے طائف معاہدے میں ان کا کرداراہم تھا۔ رفیق حریری نے دوبار لبنان کے وزیراعظم کے طورپر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پہلی بار 1992 سے 1998 تک دوسری بار2000 سے2004

فہرست کا خانہ

14 فروری 2005 کی صبح کو لبنانی دارالحکومت بیروت میں مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ کے چند ہولناک ترین واقعات میں سے ایک پیش آیا تھا، سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کو ان کے قافلے پر ایک دھماکے میں ہلاک کردیا گیا۔ رفیق حریری سعودی عرب سے قریبی تعلقات کی وجہ سے مشہور تھے اور لبنان میں 1975 سے جاری خانہ جنگی (سِول وار) کے خاتمے کیلئے 1989 میں طے پانے والے طائف معاہدے میں ان کا کرداراہم تھا۔ رفیق حریری نے دوبار لبنان کے وزیراعظم کے طورپر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پہلی بار 1992 سے 1998 تک دوسری بار2000 سے2004 تک وہ اس اہم عہدے پر براجمان رہے۔

عرب دنیا میں اپنے مضبوط تعلقات اور بے پناہ دولت کی مدد سے انہوں نے بیروت کی تعمیرنو میں اہم کردار ادا کیا اور لبنانی سُنی مسلمانوں کے لیے اہم سیاسی شخصیت بن گئے تھے۔1982 سے 2000 تک جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضے کے دوران اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔رفیق حریری نے 1976 سے لبنان میں موجود شامی فوج کو واپس بھیجنے کے مطالبے کی حمایت میں بھی مؤثر طور پر آواز بلند کی ۔ اس وجہ سے شامی حمایت یافتہ لبنانی صدر ایمل لاہود سے اُن کے اختلافات پیدا ہوگئے۔ جس کے باعث وہ وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہوئے اور اُس کے تقریباً چار ماہ بعد ہی اُن کا قتل کردیا گیا۔

حریری کے قتل کے بعد لبنان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں شامی فوج کو لبنان چھوڑنا پڑا۔ جس کے بعد ملک یہ بحث چھڑ گئی کہ رفیق حریری کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ کئی لوگوں نے ان کے قتل کا الزام شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کو ٹھہرایا۔ لبنان میں شامی اور ایرانی اثرورسوخ اور اس کے خلاف رفیق حریری کا سخت مؤقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اس لیے ان کے قتل کے بعد الزامات کا رخ حزب اللہ کی طرف تھا۔ انٹرنیشنل انویسٹی گیشن کمیشن کی ابتدائی رپورٹس میں اس قتل میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ تاہم حزب اللہ ہمیشہ اس قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتی رہی ہے۔

اسرائیل کے 1982 میں بیروت کے محاصرے کے دوران عسکری تنظیم حزب اللہ قائم ہوئی جو اسرائیلی کنٹرول کے خلاف مزاحمت کررہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ لبنان میں ایک طاقتور گروپ بن گئی، سیاست اور تجارت پر اثرو سوخ بڑھانے کے علاوہ یہ ایران کی ایک پراکسی گروپ کے طور پر بھی کام کررہی تھی۔ جب اسرائیل نے 2000 میں لبنان سے انخلا کیا تو ایسا لگتا تھا کہ حزب اللہ اپنا اصل مقصد کھو چکی ہے۔ تاہم 2006 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​نے اس گروپ کو نئی طاقت دی۔ جس کے بعد اسے رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کے تاثر کو ختم کرنے میں مدد ملی۔

12 جولائی سے 14 اگست 2006 تک جاری رہنے والی لبنان اسرائیل جنگ کو جنگ ِجولائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسرائیلی جارحیت سے شروع ہونے والی یہ جنگ اقوام متحدہ کی ثالثی کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ جنگ کے خاتمے تک حزب اللہ نے خود کو لبنان کے محافظ کے طورپر منوا لیا تھا اور لبنان نے رفیق حریری کے قتک کو بڑی حد تک بھُلادیا تھا۔ پورا ملک حزب اللہ کا گرویدہ ہوگیا تھا، اس کی تعریف میں نعرے لگ رہے تھے ، نظمیں پڑھی جارہی تھیں، گلی گلی حزب اللہ کے ترانے گُونج رہے تھے۔

جولائی کی جنگ کے بعد لبنان کے عیسائی گروہوں کے درمیان ایک مضبوط شراکت قائم ہوئی، جن کو فرانس اور حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ ماضی میں حزب اللہ کے خلاف لڑنے والے عیسائی ملیشیا کے سابق رہنما بھی حزب اللہ کی مدد سے سیاست میں آگئے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال مشیل عون ہے جنہوں نے خانہ جنگی کے دوران حزب اللہ-ایران-شام تینوں سے جنگ لڑی تھی۔ طائف معاہدے کے بعد مشیل عون نے فرانس میں جلاوطنی اختیار کی، لیکن 2005 میں لبنان واپسی کے بعد وہ حزب اللہ کی سپورٹ سے 2016 میں صدر منتخب ہوئے.

لبنان میں عروج حاصل کرنے کے بعد حزب اللہ نے (جس میں اسرائیل کا کردار بھی ایک اہم وجہ ہے) عرب سپرنگ 2011 کے دوران پڑوسی ملک شام میں پرتشدد ناکہ بندیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے بڑے پیمانے پر اپنے جنگجوؤں کو شام بھیجا، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اللہ نے اپنی جنگجووٴں کی تربیت کی اور حکمت عملی کو بھی بہتر بنایا۔ ایسے وقت میں جب ہزاروں شامی خواتین اور بچے مارے گئے اور بھوک کا شکار ہوئے، حزب اللہ نے اُس وقت وہی جواز استعمال کیا جو اب اسرائیل غزہ میں قتل عام کے لیے استعمال کررہا ہے یعنی ’دہشتگرد شہریوں کو انسانی ڈھال بنا رہے ہیں‘۔

انسانی یادداشت کمزور ہوسکتی اور مشرق وسطیٰ کی سیاست بہت تیزرفتار، ممکن ہے کہ ہم واقعات اوراُن کی تاریخی اہمیت کو بھول جائیں، میں نے یہ مضمون یادیں تازہ کرنے اور تازہ واقعات کو سیاق وسباق کے مطابق بنانے کے لیے لکھا ہے۔ لبنان پر حالیہ اسرائیلی حملوں کا جائزہ لیتے ہوئے اِس صورتحال کے پس منظر کو ضرور ذہن میں رکھیں۔


اس کالم کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں
کریں

#لبنان
#حزب اللہ
#حماس اسرائیل جنگ
#اسرائیل
#مشرقی وسطیٰ