سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور

19:4620/10/2024, الأحد
جی: 20/10/2024, الأحد
ویب ڈیسک
سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی
سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا جس میں 22 شقوں کی منظوری دی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ترمیم کو ملک کی آئینی تاریخ میں ایک اہم ’سنگ میل‘ قرار دیا۔پاکستان کے سرکاری میڈیا چینل کے مطابق سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں ترمیم پیش کی۔

مختلف جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے سینیٹ میں اظہار خیال کیا۔ بعدازاں وزیرقانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

آئین کے تحت شقوں کی منظوری میں ہر شق کے لیے دوتہائی اکثریت ہونا لازمی ہے۔ سینیٹ اجلاس میں پہلی شق کے حق میں 65 ارکان اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، اس طرح سینیٹ میں حکومت کا نمبر 58 سے بڑھ کر 65 ہوگیا۔

آئینی ترامیم کے حق میں حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ شامل ہیں۔ ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔

بعد ازاں سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی۔ اس کے بعد آئینی ترمیم کی مجموعی منظوری ہاؤس میں ڈویژن کے عمل سے ہوئی اور چیئرمین سینیٹ نے لابیز لاک کرنے اور بیل بجانے کا حکم دیا۔


بل کی ترامیم میں کیا شامل ہے؟

بل کے مطابق سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔

آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔

آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی۔ چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی

کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی دو تہائی اکثریت سے کرے گی۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔

چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائےگی۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔

بل کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس کے لیے عمر کی حد 65 سال مقررہے۔

آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔

کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔

آرٹیکل 38 میں ترمیم کے تحت جس حد تک ممکن ہو سکے یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا


آرٹیکل 48 میں ترمیم منظور


وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ شریعت کورٹ میں سپریم کورٹ جج لگایا جاسکے گا۔


#آئین
#پاکستان
#ترمیم