سینیٹ کے اجلاس میں صحافیوں کے پریس گیلری سے واک آؤٹ اور اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود متنازع ’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ‘ (پیکا) بل 2025 کی منظوری دے دی گئی۔
آج (منگل کو) وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے وزیر داخلہ محسن نقوی کی طرف سے یہ بل پیش کیا۔
جب یہ بل پیش کیا گیا، تو سینیٹ میں اپوزیشن کے رہنما شبلی فراز نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ قوانین لوگوں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں، لیکن یہ بل ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ ’قوانین لوگوں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں، نہ کہ انہیں دبانے کے لیے۔ قانون کو صحیح طریقے سے بنانے میں وقت لگتا ہے۔‘
انہوں نے نے اس بات کا حوالہ دیا کہ کس طرح قومی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے پیکا میں متنازعہ ترامیم کو جلد بازی میں منظور کیا، جس پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور صحافیوں نے واک آؤٹ کیا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین نے ووٹنگ کے دوران اس بل کی حمایت کی تھی۔
اسی دوران وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے شبلی فراز کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ بل نہ تو حتمی ہے اور نہ ہی صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ قانون ٹی وی یا اخبار کے بارے میں نہیں، بلکہ سوشل میڈیا سے متعلق ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘صحافیوں کا اس بل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
سینیٹ کی داخلی امور کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ بل بنیادی طور پر پاکستان میں سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کے نظام کو جدید بنانے کی کوشش ہے۔ وزیر داخلہ کے سیکریٹری نے کہا کہ اس بل کا مقصد عوام کی حفاظت کرنا اور لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔
بل میں قانون کے سیکشن 26 اے میں وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر جھوٹی خبر پھیلائے گا جس سے معاشرے میں ڈر، خوف، بدامنی اور پریشانی پیدا ہو تو اسے تین سال قید، بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہے۔
تاہم ہیومن رائٹس کے ادارے اور ڈیجیٹل ایکٹوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ بل انفارمیشن اور آزادی اظہار رائے کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بل میں ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کی وضاحت نہیں دی گئی۔
یاد رہے کہ 23 جنوری کو قومی اسمبلی نے بل کی منظوری دی تھی۔ جبکہ صحافتی تنظیموں نے جیسا کہ پی ایف یو جے، الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کی ایسوسی ایشن، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اور پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے اس بل میں کی جانے والی ترامیم کو مسترد کر دیا تھا۔
جبکہ سیاسی جماعتوں کے اراکین اور ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سیکریٹری جنرل ارشد انصاری کہتے ہیں کہ صحافی ان تبدیلیوں کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور احتجاج کرنے کے علاوہ اسمبلی سیشنز کا بائیکاٹ بھی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس بل میں وضاحت کی کمی ہے۔ عام طور پر جب قومی اسمبلی میں کوئی بل پیش کیا جاتا ہے تو اس کو غور کے لیے اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجا جاتا ہے اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جاتی ہے، مگر اس بل میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔‘
ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔
اپنے خیالات کا اظہار کریں!