لاہور: ریپ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائی گئی، یہ سب پی ٹی آئی کی سازش ہے، مریم نواز

11:2917/10/2024, Perşembe
جی: 18/10/2024, Cuma
ویب ڈیسک
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے مبینہ ریپ سے متعلق ایک ایسی کہانی گھڑی گئی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے مبینہ ریپ سے متعلق ایک ایسی کہانی گھڑی گئی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایک نجی کالج کیمپس میں 16 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ ریپ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سیکڑوں طالب علموں نے احتجاج کیا۔ پنجاب کالج فار ویمن کیمپس میں سیکیورٹی گارڈ کی جانب سے ایک طالبہ کے ریپ کی خبریں آن لائن گردش کرنے لگیں جس کے بعد لاہور میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔

یہ احتجاج منگل کو شروع ہوئے جب اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس بھی جاری تھا۔ کیمپس کے طلبا نے اینٹی ہراسمنٹ ریلی اور مظاہرے کیے جس کے بعد صوبائی حکومت نے کالج کیمپس کی رجسٹریشن معطل کردی۔

سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ ریپ کا یہ واقعہ پچھلے ہفتے جمعرات یا جمعہ کی شام کو کیمپس کے بیسمنٹ میں ہوا تھا۔

کالج کے مطابق متاثرہ لڑکی کی شناخت نہیں ہوسکی اور اب تک کسی فیملی نے مقدمہ درج کرانے کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو کسی واقعے کی اطلاع نہیں دی گئی اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلائی جارہی ہیں۔

پیر کے روز پولیس نے بھی ابتدائی طور پر آن لائن رپورٹس کو ’فیک نیوز‘ قرار دے کر مسترد کر دیا لیکن بعد میں کہا کہ ایک سیکیورٹی گارڈ پر ریپ کا الزام لگایا گیا ہے، جو حراست میں ہے۔ تاہم بعدازاں سیکیورٹی گارڈ کو رہا کردیا گیا۔

منگل کے روز پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی گئی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

ڈان اخبار نے آغا طاہر اعجاز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہم خود کئی پولیس اسٹیشنز میں جاچکا ہوں لیکن کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے پاس ہے اور تحقیقات کی جارہی ہیں‘۔

دوسری جانب پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو (جس گروپ نے منگل کے احتجاج کو بلایا) نے ایک کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا جس میں انسانی حقوق کی آزاد تنظیمیں، طلباءکے نمائندے اور جج شامل ہوں۔

جھڑپوں میں 28 طلبا زخمی، 150 گرفتار

صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس طلب کی گئی جس نے طلبا پر لاٹھی چارج کیا۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں پولیس کو طلبا کا تعاقب کرتے اور ان پر تشدد کرتے دیکھا گیا۔

پولیس نے آس پاس کے علاقے میں پناہ لینے والے طلبا کو بھی تعاقب کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا۔ والدین اور طلبا نے اسٹوڈنٹس کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی اور کچھ دیر میں ہی کالج میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا جب دیگر کالجز کے طلبا بھی اس کالج کے سامنے جمع ہونے لگے اور طلبا اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ان جھڑپوں میں 24 طلبا اور 4 پولیس اہلکار زخمی جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ ہلاک ہوگیا۔

ریپ واقعے پر راولپنڈی میں بھی احتجاج ہوا، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اس دوران 150 افراد کو گرفتار کیا گیا۔


اے ایس پی شہربانو کا ویڈیو بیان

بعد ازاں لاہور پولیس کی اے ایس پی شہربانو نقوی کا ویڈیو پیغام منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے مبینہ ریپ وکٹم سمجھے جانے والی طالبہ کے دو رشتہ داروں سے ملاقات کی اور طالبہ کے رشتہ داروں نے ایسے کسی واقعے کے پیش آنے سے انکار کیا۔

ویڈیو بیان میں شہر بانو نقوی نے کہا کہ ’لاہور میں افسوسناک صورت حال سامنے آئی جس کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی گئی انہیں نجی ہسپتال میں لے جایا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم جس سرکاری ہسپتال میں موجود ہیں ہم نے نہ صرف اس ہسپتال کا ریکارڈ چیک کیا بلکہ اس نجی ہسپتال کا ریکارڈ بھی چیک کیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ریپ کا شکار کسی بھی لڑکی کو اس ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔‘

شہر بانو نقوی نے کہا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نجی ہسپتال کا نام لیا جا رہا ہے وہاں میڈیکولیگل کیسسز ڈیل ہی نہیں کیے جاتے بلکہ اس ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھی ایسا کیس ڈیل نہیں کیا گیا۔ اس ہسپتال کی تمام منازل کو چیک کرنے کے بعد بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ متاثرہ بچی اس نجی ہسپتال میں نہیں گئی۔‘

انہوں نے ایک اور ویڈیو بیان میں کہا کہ ’کسی کے پاس زیادتی کا ثبوت ہے تو سامنے لائیں، عوام غلط خبر پر کسی کے ساتھ زیادتی نہ کریں۔‘


پنجاب پولیس واقعے کی انکوائری

لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے واقعے کی رپورٹس سامنے آتے ہی ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔

ابتدائی تفتیش میں ملزم سیکیورٹی گارڈ نے ریپ کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ پولیس ٹیمز نے کالج اور آس پاس کے سیکییورٹی کیمروں کی فوٹیج چیک کی ہیں جن میں ایسے کسی واقعے کے شواہد نہیں ملے۔ پولیس نے طلبا سے سوال جواب بھی کیے لیکن وہ بھی کسی وکٹم کی شناخت نہیں کر سکے۔

طلبا کی جانب سے ثبوت مٹانے پر کالج پرنسپل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر ایس ایچ او ماڈل ٹاؤن اور اے ایس پی ماڈل ٹاؤن نے پرنسپل کو کالج سے نکال لیا۔

ڈی آئی جی فیصل کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر انتشار پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبریں پھیلائی ہیں۔ تمام تحقیقات کی ذاتی نگرانی کر رہا ہوں، کوئی ثبوت سامنے آتے ہی قانونی کاروائی شروع کرد ی جائے گی۔


ریپ کا جھوٹا واقعہ اور احتجاج پی ٹی آٓئی کی سازش ہے، مریم نواز

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے مبینہ ریپ کو ’چھوٹی خبر‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف پر سوشل میڈیا پر ’جعلی رپورٹس‘ پھیلانے کا الزام عائد کردیا۔

انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور کے کالج میں لڑکی کے ریپ کا واقعہ سرے سے کچھ تھا ہی نہیں، پوری کہانی گڑھی گئی ہے اور اس کے پیچھے پی ٹی آئی کا ہاتھ ہے۔ جو بچے احتجاج کررہے تھے انہیں تو اصل مسئلے کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔‘

مریم نواز نے کہا کہ ’جس بچی کا نام لیا جا رہا ہے وہ 2 اکتوبر سے ہسپتال میں زیر علاج ہے اور جس گارڈ پر الزام لگایا وہ چھٹیوں پر تھا، پولیس اسے سرگودھا سے گرفتار کرکے لائی اور وہ زیر تفتیش ہے۔ کوئی عینی شاہد تھا ہی نہیں کیونکہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔

انہوں نے تحریک انصاف پر الزام لگایا کہ ’بار بار احتجاج میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے خطرناک منصوبہ بنایا، میں نے وزیر تعلیم سے کہا انہیں کالج کی رجسٹریشن معطل نہیں کرنی چاہیے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے، اس واقعے میں جو بھی ملوث ہے انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔


#لاہور
#پاکستان
#ریپ
#فیک نیوز