غزہ میں ’نسل کشی‘ کو ایک سال: ’اسرائیل اور حماس کو کن جنگی جرائم کا سامنا ہے؟

08:504/10/2024, جمعہ
جی: 4/10/2024, جمعہ
ایجنسی
 اسرائیل آئی سی سی کا رکن نہیں ہے اور اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا
اسرائیل آئی سی سی کا رکن نہیں ہے اور اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان برسوں پرانے تنازعے نے دی ہیگ میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) میں کئی قانونی مقدمات درج ہوئے جن میں اسرائیل اور حماس رہنماوٴں کے وارنٹ گرفتاری، جنگی جرائم، نسل کشی کے الزامات شامل ہیں۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے مقدمات کی تفصیلات یہ ہیں:


غزہ میں جنگ کی وجہ سے کون سے قانونی کیسز زیر سماعت ہیں؟

اسرائیل کو ہیگ کی بین الاقوامی عدالتوں میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں اور غزہ کی پٹی میں ہونے والی جنگ سے متعلق دو قانونی مقدمات کا سامنا ہے۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کے دو رہنماؤں یحییٰ سنوار اور اسماعیل ہنیہ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست پر غور کر رہی ہے۔

اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں غزہ جنگ میں 1948 جینوسائیڈ کنونشن کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔



آئی سی سی اور آئی سی جے میں کیا فرق ہے؟

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ روم سٹیچوٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی جو یکم جولائی 2002 کو نافذ العمل ہوا۔ بین الاقوامی برادری کے 124 ممالک نے اس کی تائید کی۔

اس کا مقصد ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ہے جن پر سنگین نوعیت کے جرائم کا الزام ہے۔ یہ جرائم درج ذیل ہیں:

جنگی جرائم

انسانیت کے خلاف جرائم

نسل کشی

جارحیت کا جرم

اگرچہ اسرائیل آئی سی سی کا رکن نہیں ہے اور اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا، عدالت نے 2015 میں فلسطینی علاقوں کو تسلیم کیا تھا اور 2021 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مبینہ جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو دو مخصوص حالات میں سنگین جرائم کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اختیار ہے:

1.اگر کوئی شخص جو 124 رکن ممالک میں سے کسی ایک کا شہری ہے کوئی جرم کرتا ہے، تو آئی سی سی اس فرد کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتا ہے، اس چیز سے قطع نظر کہ اس نے وہ جرم کہاں کیا ہو

2۔اگر 124 رکن ممالک میں کوئی شخص جرم کرتا ہے تو آئی سی سی اس شخص کے خلاف مقدمہ بھی چلا سکتا ہے، چاہے وہ اس ریاست کا شہری ہو یا نہ ہو۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو ورلڈ کورٹ یعنی عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے، یہ ریاستوں کے درمیان تنازعات اور اقوام متحدہ کے معاہدوں کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں جنوبی افریقہ نے غزہ کی جنگ میں 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔



نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ کس مرحلے پر ہے؟

مئی میں پراسیکیوٹر نے نیتن یاہو اور یوو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کیے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غزہ میں شہریوں کو ضروری وسائل (پانی، خوراک، ادویات وغیرہ) تک رسائی کی اجازت نہیں دی۔

گرفتاری کے وارنٹ پر فیصلہ سنانے کے لیے کوئی مخصوص ڈیڈ لائن نہیں ہے۔ عام طور پر ایسی درخواستوں کا جائزہ لینے میں کئی مہینے لگتے ہیں۔ اس ہائی پروفائل کیس میں کئی ممالک نے اپنی رائے پیش کی ہے۔ اسرائیل نے 20 ستمبر کو اس درخواست کو چیلنج کیا تھا۔ اگر اسرائیل اور حماس تنازعے سے متعلق آئی سی سی میں کوئی مقدمہ چلایا جاتا ہے تو حتمی فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔


حماس کے خلاف کیا الزامات ہیں؟

آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے مئی میں حماس کے رہنماؤں یحییٰ سنوار، محمد دیف اور اسماعیل ہنیہ کے خلاف 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے دوران قتل، ریپ اور یرغمال بنانے سمیت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے گرفتاری کے وارنٹ طلب کیے تھے۔

ستمبر میں آئی سی سی نے اعلان کیا تھا کہ اسماعیل ہانیہ کے خلاف مقدمہ جولائی میں ان کی موت کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹر نے یہ بھی کہا کہ وہ محمد دیف کی مبینہ موت کی رپورٹس کا بھی جائزہ لے رہے ہیں اور اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ان کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا جائےگا۔


اگر آئی سی سی وارنٹ گرفتاری جاری کرتا ہے تو کیا ہوگا؟

اگر کسی شخص کی گرفتاری کا وارنٹ آئی سی سی کی طرف سے جاری کیا گیا ہے اور وہ شخص ان ممالک کی سرزمین میں ہے جو آئی سی سی کا رکن ہے، ان ممالک کے رہنما اس شخص کو گرفتار کرکے آئی سی سی کے حوالے کرنا لازمی ہے۔

عدالت کے پاس کوئی پولیس فورس نہیں ہے، اس لیے ملزمان کو ممالک کے ادارے ہی گرفتار کرسکتے ہیں۔ اگر ممالک ایسا نہیں کرتے تو انہیں سفارتی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔


اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

گزشتہ دسمبر میں جنوبی افریقہ نے نسل کشی کنونشن کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں آئی سی جے میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔

جنوبی افریقہ نے کئی بار فوری طور پر اقدامات کرنے کی درخواست کی فوری ہنگامی اقدامات کے لیے کہا ہے جب کہ فریقین میرٹ پر سماعت کا انتظار کر رہے ہیں، جس پر عمل ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ جنوری میں ججوں نے پایا کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ اسرائیل نے نسل کشی کے معاہدے کے تحت غزہ میں فلسطینیوں کے کچھ حقوق کی خلاف ورزی کی اور اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوجیں نسل کشی کی کوئی کارروائی نہ کریں۔

جنوبی افریقہ نے بار بار فوری ہنگامی اقدامات کی درخواست کی ہے جب کہ ا تک آئی سی جے میں اہم مسائل پر سماعت کا آغاز اب تک نہیں ہوا، جس کو شروع ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

جنوری میں ججوں نے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل نے جیونسائیڈ ٹریٹی کے تحت غزہ میں فلسطینیوں کے کچھ حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوج نسل کشی نہ کریں۔

عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے لیے بنیادی خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائے اور رفح میں اپنی فوجی کارروائی کو فوری طور پر روکے۔

جنوبی افریقہ کو اکتوبر کے آخر تک اپنا مکمل کیس پیش کرنا ہوگا، جبکہ اسرائیل کو جواب دینے کے لیے اگلے سال جولائی تک کا وقت دیا گیا ہے۔

اگر ممالک آئی سی جے کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے ہیں تو عدالت ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔



#مشرقی وسطیٰ
#حماس اسرائیل جنگ
#اسرائیل
#غزہ
#آئی سی سی