روپوش زندگی گزارنے والے حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ کون تھے؟

13:091/10/2024, منگل
جنرل1/10/2024, منگل
ایجنسی
حسن نصر اللہ سال 1960 میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں ایک غریب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔
حسن نصر اللہ سال 1960 میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں ایک غریب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ ہلاک ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ نے اپنے لیڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

آ‏ئیے حسن نصراللہ کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

حسن نصر اللہ لبنان کی وہ واحد شخصیت تھے جو جنگ چھیڑنے یا امن قائم کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ لیکن وہ اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کے لیے ایک روپوش زندگی گزارتے رہے ہیں۔ نصراللہ کو شیعہ کمیونٹی سے بڑی سپورٹ حاصل تھی۔ ان کا گروپ لبنان کی فوج سے کہیں زیادہ خطرناک اور کہیں زیادہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔


ابتدا‏ئی زندگی

حسن نصر اللہ سال 1960 میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں ایک غریب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1975 میں جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کا خاندان جنوبی لبنان میں ان کے آبائی گاؤں بسوریہ چلا گیا۔ 15 برس کی عمر میں انہوں نے لبنان میں شیعوں کی نمائندہ تحریک ’امل‘ میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے عراق کے شہر نجف میں قرآن اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور یہیں ان کی ملاقات سید عباس موسوی سے ہوئی جو لبنانی امل ملیشیا کے رہنما تھے۔1978 میں حسن نصراللہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ لبنان واپس آ گئے جہاں انہوں نے بعلبک نامی علاقے میں عباس موسوی کے مدرسے میں مذہبی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ بعد ازاں انہیں بقا کے علاقے میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ 1982 میں لبنان میں اسرائیلی جارحیت کے بعد حسن نصراللہ نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی اور خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دیا۔

حزب اللہ میں شمولیت

حسن نصر اللہ نے 1982 میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والی عسکری تنظیم حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی جب کہ 1992 میں حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کو اسرائیل نے قتل کردیا تھا۔ جس کے بعد حسن نصر اللہ کو تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف بہترین مزاحمتی حکمت عملی اپنائی اور سال 2000 میں 22 سال بعد اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے انخلا پر مجبور کردیا۔

2005 میں لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار ادا کیا، ان کا ماننا ہے کہ حزب اللہ صرف ایک مزاحمتی تنظیم نہیں بلکہ دین اسلام کا پیغام پھیلا رہی ہے۔


حسن نصراللہ روپوش زندگی کیوں گزار رہے تھے؟

نصراللہ کو 2006 میں اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی جنگ کے بعد سے عوام میں بہت کم ہی دیکھا گیا تھا۔ سال 2011 میں وہ بیروت کے جنوبی علاقے میں ایک مذہبی جلوس میں سامنے آئے تھے اور کسی نامعلوم مقام سے ویڈیو پر ہجوم سے خطاب کرنے سے پہلے انہوں نے حامیوں کو مختصر طور پر خوش آمدید کہا تھا۔

لبنان کے حزب اللہ نواز اخبار 'الاخبار' کو 2014 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ ’اسرائیلی اس خیال کو پھیلا رہے ہیں کہ میں عوام سے دور رہتا ہوں، میں اُن سے نہیں ملتا اور نہ ہی اُن سے بات چیت کرتا ہوں۔‘ گزشتہ دو عشروں میں ان کی زیادہ تر تقاریر کسی خفیہ مقام سے ریکارڈ اور نشر کی گئیں۔


غزہ جنگ میں حسن نصراللہ کا کردار

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ناختم ہونے والے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حزب اللہ نے سرحد پر واقع اسرائیلی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور اسے غزہ کے لیے ’بیک اپ فرنٹ‘ قرار دیا۔

اس دوران حسن نصر اللہ نے دعویٰ کیا حزب اللہ کے سرحد پار حملوں نے اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور غزہ میں حماس پر توجہ مرکوز کرنے سے روکا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں حملے نہیں روکے گی، حزب اللہ بھی اسرائیل کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

چند ہفتوں پہلے سترہ اور اٹھارہ ستمبر کو لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد بھی نصراللہ نے حماس کی حمایت کے موقف کو تبدیل نہیں کیا۔ پیجر دھماکوں کے بعد جاری ہوئی تقریر میں حزب اللہ کے سربراہ نے لبنان میں اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملوں کو ایک ’موقع‘ سے تعبیر کیا۔

اب اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز بیروت پر کیے گئے حملوں میں حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز کو ہلاک کردیا ہے۔




#حزب اللہ
#نصر اللہ
#حماس اسرائیل جنگ
#مشرقی وسطیٰ