انڈین وزیر خارجہ جے شکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 23 ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے بدھ کے روز پاکستان پہنچے۔
جے شنکر انڈین ائیرفورس کے خصوصی طیارے کے ذریعے سہ پہر 3:30 بجے راولپنڈی میں نور خان ایئربیس پہنچے جہاں پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام نے ان کا استقبال کیا۔
پاکستان آئے دیگر غیر ملکی مہمانوں کو مختلف پاکستانی وزرا اور وزیراعظم شہباز شریف نے استقبال کیا تھا لیکن جے شنکر کے استقبال کے لیے کوئی پاکستانی وزیر نہیں پہنچا تھا جس پر سوشل میڈیا پر تبصرے بھی کیے گئے۔
یہ کسی بھی انڈین وزیر کا تقریباً دہائیوں بعد پہلا دورہ ہے جس کی وجہ سے انڈین وزیر خارجہ میڈیا کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ آخری بار 2015 میں انڈیا کی اُس وقت وزیر خارجہ سشما سوراج ’ہارٹ آف ایشیا‘ کی وزارتی تنظیم کے لیے پاکستان آئیں تھیں اور اسی سال انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک لاہور پہنچے تھے اور اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان آنے سے قبل جے شنکر نے پہلے ہی یہ واضح کردیا تھا کہ وہ اِس دورے کے دوران دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر بات چیت نہیں کریں گے بلکہ ایس سی او کے رکن کے طور پر جارہے ہیں۔
ایس سی او اجلاس کے دوران دیگر غیر ملکی سربراہان کی طرح انڈین وزیر خارجہ نے بھی خطاب کیا۔ اس دوران اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان برف ٹوٹنے کی باتیں میڈیا میں گردش کرتی رہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر وزیر خارجہ جے شنکر نے اس ایونٹ کو ’نتیجہ خیز‘ قرار دیا۔
ایس سی او کے اختتام پر انڈیا روزانہ ہونے سے قبل جے شنکر نے ٹوئٹ کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور حکومت پاکستان کی جانب سے مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ’پاکستان میں انڈین ہائی کمیشن میں واک کرنے اور درخت لگانے کی تصاویر شئیر کیں جس پر صارفین نے دلچسپ تبصرے بھی کیے۔
اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ اگر سرحد پار دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی تو ایسے ماحول میں تجارت، توانائی اور باہمی رابطے کا فروغ ناممکن ہے۔
انہوں ںے کہا کہ ’اس کے لیے ہمیں ایماندرای سے گفتگو کرنے، اعتماد پیدا کرنا، اچھے پڑوسی تعلقات اور ایس سی او کے چارٹر سے جُڑے رہنے کی ضرورت ہے۔‘
جے شنکر نے اپنی تقریر میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ ’اگر اعتماد اور تعاون میں کمی ہو یا اگر ہمسانیہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہوں تو اس کی وجوہات پر غور کرنا اور بنیادی مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہمیں اس وقت بڑے عالمی چیلنجز کا سامنا ہے۔ دو بڑے تنازعات جاری ہیں، جس کے نتائج کا سامنا پوری دنیا کو ہے۔‘
سینئر صحافی حامد میر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کھانوں اور پھلوں کا کوئی جواب نہیں، اگر آپ لوگ اپنے ملک میں سیاسی استحکام بھی لے آئیں تو وہ دن دور نہیں جب آپ برکس اور جی 20 کے سربراہی اجلاسوں کی بھی میزبانی کرتے نظر آئیں گے‘۔
ایس سی او سمٹ کے بعد جے شنکر نے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے بھی ون آن ون ملاقات کی جس کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔ مقامی میڈیا کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ملاقات میں روایتی بات چیت سے زیادہ گفتگو ہوئی۔ تاہم اس حوالے سے آفیشلی کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔
ایس سی او اجلاس میں بیلاروس اور کرغستان کے وزیراعظم بھی اسلام آباد پہنچے تھے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں چائنہ، انڈیا روس، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 16 ممالک کے مبصرین یا ڈائیلاگ پارٹنرز بھی شرکت کریں گے۔
پاکستان 2017 میں قازقستان میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس کا مستقبل رکن بنا تھا جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے شرکت کی تھی۔
پی ٹی وی نیوز کے مطابق کرغستان کے وزیر اعظم اپنی وزرا کی کابینہ کے ہمراہ نور خان ایئربیس پہنچے جہاں ان کا استقبال وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے کیا۔
اس کے علاوہ تاجک وزیراعظم بھی نور خان ایئرپورٹ پہنچے جہاں وزیر تجارت جام کمال خان نے ان کا استقبال کیا۔ کچھ دیر بعد بیلاروس کے وزیراعظم اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے جہاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان کا استقبال کیا۔
ایس سی او سمٹ کے بعد حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلا س میں بیلا روس کے وزیر اعظم گلووچنکو، بھارتی وز زیر خارجہ جے شنکر، ایران کے وزیر معدنیات وزیر سید محمد اطباق شریک ہوئے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پاکستان، کرغیزستان، بیلاروس ، قازقستان، روس اور ازبکستان نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو کی حمایت کی ہے۔
اس کےعلاوہ سمٹ میں گرین ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل اکانومی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رکن ممالک کے استعداد کار بڑھانے پر زور دیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سربراہان نے ایس سی او کے سربراہان حکومت کے کامیاب اجلاس پر پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا۔ اجلاس میں ایس سی او کی معاشی اور تنظیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔
سربراہان نے انفارمیشن سیکورٹی کی فیلڈ میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا، الیکٹرانک تجارت کے سپیشل ورکنگ گروپ کے مسلسل اجلاس منعقد کرنے پر زور دیا گیا۔ سربراہان نے قومی صعنتی پالیسی ، ڈیجٹل پلٹ فارزم ، کے تجربات کے تبادلے کی تجویز کا جائزہ لیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم ایک علاقائی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تنظیم ہے جسے ابتداء میں چین اور روس نے قائم کیا۔ شروع میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان ایس سی او کے ممبر ملک تھے۔ پاکستان اور بھارت نے جون 2017، ایران نے 2023ء اور بیلاروس نے 2024ء میں تنظیم کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ اس طرح ایس سی او کے مستقل ارکان کی تعداد 10 ہے۔ اس کے علاوہ 3 ممالک مبصر اور 14 ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے ایس سی او دنیا کے تقریباً 80 فیصد رقبے پر محیط ہے۔
2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ایس سی او دنیا کی 40 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصد حصہ رکھتی ہے۔
سربراہان مملکت کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے بڑا فیصلہ سازی کا حامل فورم ہے۔
کونسل شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس رکن ممالک کے دار الحکومتوں یاکسی ایک شہرمیں ہر سال منعقد یوتا ہے۔
ایس سی او تنظیم کے اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے۔
ایس سی او کے سربراہان مملکت کے اکتوبر میں ہونیوالے سربراہی اجلاس سے قبل 10اور 11ستمبر کو اسلام آباد میں ایس سی او کی تجارت اور اقتصادی امور کے وزراء کے اجلاس کی صدارت کی