پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کیلئے آنسو گیس کی پھینکی، کم از کم 30 مظاہرین کیے۔
اسلام آباد میں جمعے کی رات اور ہفتے کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے قبل سیکیورٹی کے فرائض سنبھالنے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں پاک فوج کے دستے تعینات کردیے گئے۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعے کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران کم از کم 30 مظاہرین گرفتار کیے گئے۔ مظاہرین ڈی چوک کی طرف بڑھنے کی کوشش کررہے تھے تو پولیس نے مظاہرین کو منشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی اور شیلنگ بھی کی۔
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اس سے قبل اپنے حامیوں سے ’پرامن احتجاج‘ کے لیے ڈی چوک پر جمع ہونے کی اپیل کی تھی۔
اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
- وفاقی حکومت نے 5 سے 17 اکتوبر تک فوج کو ایس سی او کی سیکیورٹی کے لیے تعینات کیا ہے۔
- پی ٹی آئی کے مظاہرین کے ساتھ پولیس کی جھڑپیں، ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور شیلنگ بھی کی۔
- خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ گنڈا پور ڈی چوک پہنچیں گے
- جڑواں شہروں میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل
- عمران خان کی بہنیں علیمہ اور عظمیٰ خانم سمیت پی ٹی آئی کے کم از کم 30 مظاہرین گرفتار
پی ٹی آئی کی جانب سے شیئر کی گئی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ پولیس کارکنوں کو گرفتار کررہی ہے۔ اور ’عمران کو رہا کرو‘ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ ریڈ زون سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر مظاہرین نے عمران خان کی تصاویر اور پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھا کر نعرے لگائے
رپورٹس کے مطابق ریڈ زون اور ڈی چوک کی طرف جانے والی سڑکوں کو چاروں اطراف سے سیل کر دیا گیا، سرینا، جناح ایونیو، نادرا اسکوائر، میریٹ ہوٹل اور زیرو پوائنٹ، سری نگر ہائی وے، فیض آباد چوک، سنجگانی ٹول پلازہ، مارگلہ روڈ اور 9ویں ایونیو کو بھی بند کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی احتجاج کیوں کررہی ہے؟
پی ٹی آئی نے حالیہ ملک بھر میں ریلیاں نکالی تھیں، پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ بانی عمران خان عمران خان کی گرفتاری ’غیر قانونی‘ ہے اور انہیں جلد رہا کیا جائے، اس کے علاوہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر پر احتجاج کررہی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد اور لاہور میں احتجاجی ریلیوں سے پہلے اس مہینے کے شروع میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں کسی بھی قسم کی اجتماع پر پابندی عائد کی تھی جس پر پی ٹی آئی عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی اور حکام اور پارٹی کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
آج جمعے کے روز مختلف شہروں سے پی ٹی آئی کے کارکنان قافلے کی شکل میں اسلام آباد کا رخ کررہے ہیں۔ دوسری جانب وزیر داخلہ محسن نقوی نے پہلے ہی ہائی پروفائل شخصیات کی موجودگی کی وجہ سے اسلام آباد میں کوئی بھی جلسہ نہ کرنے پر خبردار کیا تھا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی پارٹی پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے احتجاج کو ہائی پروفائل شخصیات کے جانے تک ملتوی کر دے۔
’قانون کو ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے‘
پولیس نے اسلام آباد کی طرف آنے والے تمام راستے بند کر دیے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش میں آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی۔
اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سید علی ناصر رضوی نے ڈی چوک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں بھی پولیس کو نقصان پہنچانے یا املاک کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئی ہیں وہاں کارروائی جاری ہے۔ اب تک 30 سے زائد گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ ہمیں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔
اسلام آباد میں فوج تعینات، ’فوجی دستوں کو گولی چلانے کا اختیار ہے‘
اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی سیکیورٹی اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے 5 سے 17 اکتوبر تک وفاقی دارالحکومت میں فوج کی تعیناتی کی اجازت دے دی۔
وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فوج کو کن علاقوں میں تعینات کیا جائے گا اور ان کی تعداد کتنی ہوگی اس کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔
سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج نے وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے فرائض سنبھال لیے ہیں۔ فوج نے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے گشت شروع کر دیا ہے، کسی کو بھی امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بی بی سی اردو کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 245 کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو طلب کیا گیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب مجسٹریٹ اسلام آباد نے پاک فوج کے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو ایک مراسلہ لکھا جس میں فوجی دستوں کے اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے۔اس مراسلے میں اہم نقطہ یہ ہے کہ فوجی دستوں کو گولی چلانے کا اختیار ہے۔
مراسلے میں کہا گیا کہ فوجی دستوں کو ’پرتشدد عناصر، ہجوم یا افراد‘ کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے۔ ایسے ہجوم یا افراد کو پہلے وارننگ دی جائے گی پھر ہوائی فائرنگ کی جائے گی، ہجوم کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کا فوری جواب دیا جائے گا اور طاقت کا کم سے کم استعمال کیا جائے گا۔