پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع دُکی میں مسلح حملہ آوروں نے کوئلے کی ایک کان میں 20 کان کنوں کو ہلاک اور سات کو زخمی کردیا۔
یہ واقعہ جمعرات کی رات کو پیش آیا جب مسلح ملزمان ایک نجی کان میں گھسے اور مزدوروں پر فائرنگ کردی۔
مقامی پولیس افسر ہمایوں خان نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’مسلح ملزمان کے ایک گروپ نے دُکی کے علاقے میں جنید کول کمپنی مائن پر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کیا، حملہ آوروں نے بارودی سرنگوں پر راکٹ اور دستی ہم بھی گرائے‘۔
پولیس کے مطابق ’زیادہ تر مرنے اور زخمی ہونے والوں کا تعلق بلوچستان کے پشتون بولنے والے علاقوں سے تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے 3 اور زخمیوں میں 4 افغان شہری تھے‘۔
تاہم اب تک کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب 2 دن بعد 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس شروع ہونے والا ہے۔
بلوچستان ایسا خطہ مانا جاتا ہے جہاں کئی مسلح گروپس موجود ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ان میں سے ایک ہے جو حالیہ کچھ مہینوں میں ملک میں حملے کرتی آئی ہے۔ ان مسلح گروپس کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے تیل اور معدنی وسائل کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور مقامی لوگوں کو نظر انداز کررہی ہے۔بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا لیکن سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے اور اس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر کو دہشت گرد کالعدم تنظیم بی ایل اے نے کراچی ایئرپورٹ کے قریب دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 2 چینی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے نے کہا کہ اس کے دو شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ جبکہ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق دھماکے میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوئے، چار کاریں تباہ اور 10 مزید گاڑیوں کو آگ لگنے سے نقصان پہنچا۔
بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ خودکش تھا اور مجید بریگیڈ کے شاہ فہد عرف آفتاب کی تصویر بھی جاری کی تھی۔
ہزاروں چینی شہری پاکستان میں کام کرتے ہیں، جن میں سے بہت سے بیجنگ کے اربوں ڈالر کے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ہیں۔
چین نے پاکستان سے اپنے شہریوں کی سیکیورٹی بڑھانے کی بار بار درخواست کی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں بیلٹ اینڈ روڈ کے اہم منصوبوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اس حملے نے 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل پاکستان میں ہائی پروفائل تقریبات اور غیر ملکی شہریوں کی حفاظت سے متعلق سکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں پر بھی سوالات کھڑے کیے ہیں