ہماری جیبوں میں بم ہیں: کیا ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں گے؟

07:473/10/2024, Perşembe
جی: 3/10/2024, Perşembe
ارسِن چیلِک

لبنان میں بیپر دھماکوں کو صرف ’سائبر حملے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کے ہتھکنڈوں کے بارے میں بہت ساری پریشان کن تھیوریز بھی لکھی گئی ہیں۔ امریکی میڈیا کی حالیہ خبروں اور سوشل میڈیا پر ماہرین کی رائے کے مطابق حزب اللہ کے ارکان کے پھٹنے والے بیپرز کے حیران کن اثرات پوری دنیا میں بالکل اُسی طرح پھیل رہے ہیں جیسا کہ اسرائیل چاہتا تھا۔ اسرائیل کا نشانہ صرف حزب اللہ نہیں ہے جیسا کہ پچھلے 12 مہینوں سے وہ غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اسرائیل ہر حملے کے ساتھ ایک نئی دہلیز عبور کر رہا ہے اور

فہرست کا خانہ

لبنان میں بیپر دھماکوں کو صرف ’سائبر حملے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کے ہتھکنڈوں کے بارے میں بہت ساری پریشان کن تھیوریز بھی لکھی گئی ہیں۔ امریکی میڈیا کی حالیہ خبروں اور سوشل میڈیا پر ماہرین کی رائے کے مطابق حزب اللہ کے ارکان کے پھٹنے والے بیپرز کے حیران کن اثرات پوری دنیا میں بالکل اُسی طرح پھیل رہے ہیں جیسا کہ اسرائیل چاہتا تھا۔

اسرائیل کا نشانہ صرف حزب اللہ نہیں ہے جیسا کہ پچھلے 12 مہینوں سے وہ غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اسرائیل ہر حملے کے ساتھ ایک نئی دہلیز عبور کر رہا ہے اور 7 اکتوبر کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہوتا جارہا ہے۔ میں اکثر اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اسرائیل سوشل میڈیا کو مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

دہشت گردانہ حملے کے بعد افراتفری کو روکنے اور دہشت گرد تنظیموں کے پروپیگنڈے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے راستیں مختلف قسم کی پلانگز میں مصروف رہتی ہیں۔ دہشت گرد گروہ معاشرے کو ذہنی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کا حکومت پر سے اعتماد کو کمزور کر کے انہیں غیر محفوظ محسوس کرواتے ہیں۔ جسے ’سبمیشن‘ کہا جاتا ہے۔ حملوں کے بعد پرتشدد تصاویر شئیر کرکے ایسے مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔ ترکیہ میں 2015 میں پی کے کے اور آئی ایس آئی ایس کی پرتشدد کارروائیوں کا عوام پر واضح اثر پڑا۔ مثال کے طور پر 15 جولائی کی رات ترکی میں بغاوت کی کوشش کے دوران، بغاوت میں شامل فوجیوں نے جب اہم مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسی وقت سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیل گئیں، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سپاہی عوام کو آئی ایس آئی ایس کے حملے سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس گمراہ کن معلومات کو واضح روکنے کے لیے ینی شفق نے رات 10 بجکر 37 منٹ پر ایک اہم اعلان کیا گیا کہ بغاوت کی کوشش دراصل فتح اللہ گولن کی تنظیم کے ذریعے کی جا رہی تھی۔

موضوع کی طرف واپس آتے ہیں، جب اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے 3000 سے زائد ارکان کے زیر استعمال بیپرز پر دھماکہ کیا گیا، جسے ایک بڑا دہشت گرد حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں بیپر حملوں سمیت ٹارگٹ کلنگ کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنا اثر و سوخ برقرار رکھنے کا ایک نیا طریقہ شروع کیا ہے۔ یہ حکمت عملی حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد سے شروع ہوئی جو تہران کے ایک انتہائی محفوظ مقام پر مارے گئے تھے۔ ڈیوائسس کے اندر 30 سے 60 گرام بارودی مواد کرنا پیجر بنانے والی فیکٹری، حزب اللہ اور ایران کی سیکیورٹیپر سوالیہ نشان ہے۔ تاہم ایسی ڈیوائسس میں ایسا مواد نصب کرنا جس سے صرف میسج موصول کرنے پر ہی دھماکہ ہوجائے صرف سائنس فکشنل فلموں میں ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ سب حقیقت ہے کوئی فلم، سکرپٹ یا فکشن نہیں۔ جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال ریڈیو پھٹنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نے اپنی طاقت دکھاناشروع کردی ہے۔۔ اب آگے کیا ہوگا؟ اگلا نشانہ ہمارے ٹیبلیٹس، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر ہوں گے۔۔؟

یہ بالکل اسی طرح ہے جب 1945 میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے۔ ابتدائی طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا نے اپنا پہلا ایٹمی بم ’ٹرینٹی‘ میکسیکو کے صحرا میں آزمایا تھا، 20 دن بعد ’لٹل بوائے‘ نامی دوسرا بم ، جو 6 اگست 1945 کو ہیروشیما پر گرا جس سے ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے تین دن بعد ہی ’فیٹ مین‘ نامی ایک اور بم امریکا نے ناگاساکی پر گرایا جس میں صرف سیکنڈز میں 74 ہزار افراد ہلاک اور ایک تہائی شہر تباہ ہو گیا تھا۔ ان دونوں حملوں کو جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی پہلی اور واحد مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ان حملوں کے بعد دنیا فوراً بدل گئی تھی۔ جنگ میں ملوث ممالک اور وہ ملک جنہوں نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا اس ایٹمی دھماکوں سے شدید متاثر ہوئے۔ امریکہ کے ہتھیار کی تباہ کن طاقت واضح ہو گئی تھی۔ روس کی طرف سے 1961 میں 'زار بمبا' ہائیڈروجن بم کے تجربے نے امریکہ کو حیران کردیا تھا۔ سرد جنگ کے دوران سپر پاورز کا جوہری ہتھیاروں کی تیاری روکنے کا فیصلہ انسانیت کے لیے ایک اہم یقین دہانی تھی۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ موجودہ دور کی ٹیکناولوجی کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ کیونکہ موجودہ نسل کے جنگی حربے ٹیسٹنگ کے لیے اب عام عوام پر استعمال ہو رہے ہیں، اسرائیل آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کرتے ہوئے غزہ میں لوگوں کونشانہ بنا رہا ہے۔ واٹس ایپ کا استعمال کرنے والے کروڑوں صارفین نے انکشاف کیا کہ مئی میں حماس کے کارکنان پر حملہ بھی خاص پلاننگ اور شناخت کے بعد کیا گیا۔

ہیروشیما پر بم گرانے سے پہلے امریکا نے جاپان کے لوگوں کے رہن سہن اور عادات سے متعلق تفصیلی جائزہ لیا تھا تاکہ وہ حملے کے صحیح وقت کا تعین کرسکے۔ امریکہ نے اس وقت حملہ صبح 8 بجکر 15 منٹ پر کیا گیا جبکہ دوسری جانب اسرائیل بھی غزہ میں اپنے ’لوینڈر‘ نامی سوفٹ ویئر کے ذریعے بڑے پیمانے پر نسل کشی اور قتل عام کررہا ہے۔

اس واقعے کے بعد ایک سوال نے لوگوں کو بےچینی میں مبتلا کیا کہ کیا ہمارے فون بھی بیپرز کی طرح پھٹ جائیں گے؟ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ اصل بم تو ڈیوائس کے اندر نصب کیا گیا تھا۔ کمیونیکشن اور سائبر سیکیورٹی ریسرچر امت سنلاو نے ینی شفق کو بتایا کہ ہمارے فون کی بیٹریوں کو دور سے یا اسپائی ویئر کے ذریعے دھماکے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ لیتھیم بیٹریوں کے ماہر ڈاکٹر مہمت نوراللہ اٹیش نے بھی ینی شفق کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے۔

لہٰذا چاہے ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو، کیا ہم اپنی جیبوں میں ’بم‘ لیے ہوئے ہیں، جنہیں الگورتھم کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اب ہم یا تو اسرائیل کے گھٹنے ٹیک دیں یا آنے والی نئی ٹیکنالوجیز کی سچائی قبول کریں۔ اگرچہ ٹک ٹاک پر ویڈیوز دیکھتے ہوئے سیل فون ہمارے چہروں پر بیپر کی طرح نہیں پھٹ سکتےہیں، لیکن صرف ایک نوٹیفیکشن کے زریعے ہزاروں لوگ دھماکے کے خطرے میں آسکتے ہیں۔ کیا ہم اس چیز سے واقف ہیں؟

#اسرائیل
#ایران
#حماس
#حماس اسرائیل جنگ