کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں دو چینی شہریوں سمیت 3 افراد ہلاک اور 11 لوگ زخمی ہوگئے۔
حملے کے نتیجے میں دو چینی شہری ہلاک، ایک زخمی ہوا ہے۔
شفارت خانے کی جانب سے اس ’دہشت گردانہ حملے‘ کی شدید مذمت کی گئی اور فوری طور پر حملے کی مکمل تحقیقات کرنے، ملوث افراد کو سزا دینے اور پاکستان میں چینی شہریوں، اداروں اور پروجیکٹس کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی درخواست کی گئی۔
بعدازاں اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
دھماکے کی جگہ کی فوٹیج میں کئی گاڑیوں کو آگ کی لپیٹ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حکام نے بتایا کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ایسٹ) کیپٹن (ر) اظفر مہیسر نے تصدیق کی کہ دھماکے میں کُل تین افراد ہلاک ہوئے جن میں دو چینی شہری شامل ہیں، اور 7 گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔
کراچی ایئرپورٹ کا علاقہ ہائی سکیورٹی زون میں شامل ہے۔ اور اس کے قریب ہی ملیر کینٹ کا علاقہ بھی موجود ہے پاک فوج کی چھاونی ہے۔
ایک بیان میں کالعدم دہشت گرد گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ خودکش تھا جس میں مجید بریگیڈ کے شاہ فہد عرف آفتاب کی تصویر بھی جاری کی ہے۔ رپورٹس کے مطابق شاہ فہد بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تھا اور وہ لسبیلہ یونیورسٹی کے بی بی اے کا طالب تھا۔
یہ گروپ ماضی میں بھی باقاعدگی سے چینی شہریوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
یہ حملہ ایسے حالات میں ہوا جب حکومت کے لیے چینی شہریوں کی سیکیوریٹی ایک بڑا چیلنچ بنی ہوئی ہے اور ایسے وقت میں کہ جب اسلام آباد 14 سے 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کی میزبانی کررہا ہے۔ یاد رہے حالیہ کچھ سالوں میں قریب 20 چینی شہریوں کو مختلف دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ بی ایل اے سے پہلے ٹی ایل پی چینی شہریوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔