غزہ میں جو امریکا کر رہا ہے کیا یہ اس کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے یا کچھ اور؟

15:2410/10/2024, جمعرات
جی: 10/10/2024, جمعرات
عبداللہ مُراد اوغلو

29 مئی 2017 کو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فرانسیسی اخبار ’لی فیگارو‘ کو خصوصی انٹرویو دیا جہاں ایک جگہ پوتن نے امریکی صدور کی جانب سے خارجہ پالیسیوں کو سنبھالنے سے متعلق دلچسپ ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ: ’میں نے اب تک تین امریکی صدور سے مل چکا ہوں، وہ آئے اور چلے گئے مگر پالیسیاں جیسی تھیں ویسی ہی رہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ مضبوط بیوروکریسی کی وجہ سے۔ جب بھی کوئی نیا صدر منتخب ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی نیا صدر منتخب ہوتا ہے، ہوسکتا ہے اس کے خیالات مختلف ہوں مگر پھر سیاہ سوٹ میں ملبوس بریف کیس والے آدمی

فہرست کا خانہ

29 مئی 2017 کو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فرانسیسی اخبار ’لی فیگارو‘ کو خصوصی انٹرویو دیا جہاں ایک جگہ پوتن نے امریکی صدور کی جانب سے خارجہ پالیسیوں کو سنبھالنے سے متعلق دلچسپ ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ: ’میں نے اب تک تین امریکی صدور سے مل چکا ہوں، وہ آئے اور چلے گئے مگر پالیسیاں جیسی تھیں ویسی ہی رہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ مضبوط بیوروکریسی کی وجہ سے۔ جب بھی کوئی نیا صدر منتخب ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی نیا صدر منتخب ہوتا ہے، ہوسکتا ہے اس کے خیالات مختلف ہوں مگر پھر سیاہ سوٹ میں ملبوس بریف کیس والے آدمی جنہوں نے سرخ کے علاہ سیاہ یا نیوی رنگ کی ٹائی پہنی ہوتی ہے، وہ انہیں سب سمجھا دیتے ہیں کہ نظام کیسے چلتا ہے اور پھر سب اچانک تبدیل ہوجاتا ہے‘۔

پیوٹن نے اوبامہ کا حوالہ دیتے ہوئے انسانی حقوق کے بارے میں امریکی نقطہ نظر کی مثال بھی دی۔ انہوں نے کہا: ’اوباما جو ایک لبرل، آگے کی سوچ رکھنے والا، ایک جمہوری پسند انسان ہے کیا اس نے منتخب ہونے سے پہلے گوانتانامو کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا؟ کیا اس نے کیا تھا؟ اس سے نے ایسا نہیں کیا تھا۔ کیا میں وجہ جان سکتا ہوں ؟ کیا اس لیے کہ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا چاہتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا‘۔

پوتن نے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح لوگوں کو گوانتانامو کے فوجی کیمپ میں بغیر کسی مقدمے کے زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا۔ ’کیا آپ فرانس یا روس میں یہ سب تصور کرسکتے ہیں؟ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ ایک تباہی ہوگی۔ لیکن امریکا میں یہ سب ممکن ہے اور آج بھی ہورہا ہے‘۔

اِسی سال امریکی اخبار نے ایک دستاویز شائع کیا تھا جس نے پوتن کے دعوؤں کی مکمل حمایت کی تھی۔17 مئی کو امریکی محکمہ خارجہ کے پالیسی پلاننگ آفس کے ڈائریکٹر اور سیکیرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلیریسن کے مشیر بریٹن ہوک نے تین صفحات کا میمو لکھا تھا اور پھر 19 دسمبر 2017 کو ’پولیٹیکو‘ میں نہال ٹوسی نے ’ Leaked Memo Taught Tillerson a Lesson on Human Rights‘ کے عنوان سے آرٹیکل بھی لکھا تھا۔

ایگزون موبل کے سابق سی ای او ٹلرسن کے لیے تیار کردہ میمو ایک طرح کا کریش کورس تھا۔ اس نے امریکی اتحاد میں جابر حکومتوں کو بچانے کے لیے انسانی حقوق کو ہتھیار کے طور پر ایران، چین اور شمالی کوریا جیسے دشمنوں کے خلاف استعمال کیا۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’اتحادیوں کے ساتھ مخالفوں کے مقابلے مختلف اور بہتر سلوک کیا جانا چاہیے۔ ورنہ ہمارے دشمن زیادہ اور اتحادی کم ہوں گے۔‘

ڈیموکریٹک صدر بارک اوباما کے دور میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے سابق معاون وزیر خارجہ ٹام مالینووسکی نے میمو پر سخت تنقید کی۔ مالینووسکی کے مطابق امریکہ کی اخلاقیات کی اتھارٹی دنیا میں اس کے سب سے بڑے فوائد میں سے ایک تھی۔ ان کے خیال میں جمہوریت اور انسانی حقوق پر دوہرامعیار اس اخلاقی اتھارٹی کو کمزور کر دے گا۔

لیکن کیا یہ دستاویز ریپبلکن انتظامیہ کے لیے نئی تھیں؟ کیا ٹرمپ اس سے مستثنیٰ ہیں؟ جو بائیڈن کی انتظامیہ کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں کیا خیال ہے، بائیڈن اوباما کے نائب صدر رہ چکے ہیں اور اب بطور صدر خدمات انجام دے رہے ہیں؟

بائیڈن یا اسٹیٹ سکریٹری انتونی بلنکن کو کسی سیاہ سوٹ میں ملبوس بریف کیس والے آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بائیڈن 1970 کی دہائی میں سینیٹ کے اعلی عہدے پر فائز ہونے کے بعد ایک تجربہ کار سیاستدان رہ چکے ہیں۔ جہاں تک بلنکن کا تعلق ہے وہ 1994 سے ڈیموکریٹ انتظامیہ میں ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ سمیت خارجہ پالیسی اورسیکیورٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

لہٰذا غزہ میں جاری نسل کشی کے باوجود بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں، رقم اور سفارتی مدد کی مسلسل فراہمی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ اسرائیل فلسطینیوں کو - چاہے بچے ہوں یا عورتیں- انسان سمجھتا ہی نہیں ہے۔ اسرائیل کے اندھا دھند حملوں میں 10 ہزار سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور 700 سے زیادہ ان بچوں کا قتل عام کیا جو اپنی پہلی سالگرہ تک نہیں منا سکے۔ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی تنظیموں کے ممبرز کو بھی قتل کیا۔

اگر امریکہ کی ’بلیک لسٹ‘ میں شامل کسی بھی ملک نے وہ کیا جو آج اسرائیل کررہا ہے چاہے اس کا صرف ایک فیصد ہی کیوں نا ہو تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ کیا کوئی رہ گیا ہے جو امریکہ کی اخلاقی اتھارٹی یا انصاف پر سنجیدگی سے بات کر سکے؟



#حماس اسرائیل جنگ
#مشرقی وسطیٰ
#امریکا
#غزہ
#اسرائیل