حکومتِ پاکستان نے انسانی حقوق کی تنظیم پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی عائد کردی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ ’وفاقی حکومت کے پاس وجوہات ہیں کہ پی ٹی ایم ملک کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو ملک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘
تاہم نوٹیفکیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ تنظیم کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
بشتون تحفظ مومنٹ 2014 میں محسود تحفظ مومنٹ کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ یہ تنظیم پاکستان میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور پشتونوں اور دیگر اقلیتوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائی رہی تھی۔
پی ٹی ایم کا الزام ہے کہ پاکستان کی عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کے دوران خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں پشتونوں کو حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تنظیم نے اس کا الزام پاک فوج پر عائد کیا لیکن عسکری ادارے نے اس کی مسلسل تردید کی ہے۔
اس تنظیم کی سربراہی منظور پشتین کررہے تھے۔
یہ تنظیم اس وقت ابھر کر سامنے آئی جب نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔
2018 کے الیکشن میں پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر بالترتیب نارتھ اور ساوٴتھ وزیرستان کے اضلاع سے پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔
پی ٹی ایم کا الزام ہے کہ اسے پاک فوج کے ہاتھوں ہراسانی، دھمکیوں اور سنسرشپ کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ پاک فوج نے 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے 30 سال سے زیادہ عرصے سے ملک پر براہ راست حکومت کی ہے۔
تاہم پاک فوج پی ٹی ایم کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور اکثر اسے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں، خاص طور پر افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) اور انڈیا کے ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (را) کی طرف سے فنڈز فراہم کرنے کا الزام لگاتی ہے۔ پی ٹی ایم ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔