
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کا کہنا ہے کہ اگر مغربی ممالک ثابت کریں کہ وہ ’سنجیدہ‘ ہیں تو ایران اپنے نیوکلر پروگرام کے بارے میں بات کرنے کو تیار ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسماعیل بقائی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب دوسرا فریق اس میں سنجیدہ ہو۔
حال ہی میں تہران کئی بار مغرب کو اشارہ دے چکا ہے کہ وہ اپنے نیوکلر پروگرام سے متعلق کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔
منگل کے روز سرکاری ٹیلی گرام چینل پر پوسٹ کیے گئے اسکائی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا تھا کہ اگر نئی امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ تہران نیوکلر مذاکرات کا نیا دور شروع کرے تو وہ ایران کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
جمعرات کے انٹرویو میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امید ظاہر کی کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے حوالے سے ’حقیقت پسندانہ رویہ‘ اپنائیں گے۔
نئی بات چیت کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر اسماعیل بقائی نے جمعرات کو کہا کہ ایران کی پالیسی پر بات پر منحصر ہے کہ دوسرا فریق کیسے اقدامات اٹھاتا ہے۔
یاد رہے کہ جوہری معاہدہ (جوائنٹ کمری ہنسیو پلان آف ایکشن) ایران اور کچھ دوسرے ملکوں کے درمیان 2015 میں ہوا تھا، جس میں ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے کا وعدہ کیا تھا اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔
لیکن 2018 میں امریکہ نے اس معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ایران نے بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنا کم کر دیا۔ اس کے بعد سے جوہری معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔
ایران نے بار بار جوہری معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیاں نے اپنے ملک کی تنہائی کے خاتمے کی درخواست کی تھی۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس واپس آنے سے پہلے ایرانی حکام نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے عہدیداروں سے جوہری مذاکرات کیے تھے۔
دسمبر میں تین مغربی حکومتوں نے تہران پر الزام لگایا تھا کہا ایران بغیر کسی ٹھوس وجوہات کے یورینیم کا ذخیرہ بڑھا رہا ہے جس کے بعد ممکن ہوسکتا ہے کہ ملک پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں۔
جس پر ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ اگر ایران پر دوبارہ پابندیاں لگائی گئیں تو ایران کا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدہ کے تحت عمل کرنا بے معنی ہوگا۔
یاد رہے کہ اس معاہدہ پر جن ممالک نے دستخط کیے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے جوہری مواد یا ذخائر کا اعلان کریں اور انہیں عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے زیر نگرانی رکھیں تاکہ یہ مواد غیر قانونی طور پرغلط استعمال نہ ہو۔
ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔
اپنے خیالات کا اظہار کریں!