ینی شفق انگلش

باغیوں کا گومہ پر قبضہ، سڑکوں پر لاشیں، لڑائیوں میں شدت: آخر جمہوریہ کانگو میں ہو کیا رہا ہے؟

08:0629/01/2025, بدھ
جنرل29/01/2025, بدھ
ایجنسی
جمہوریہ کانگو اس وقت دنیا کے سب سے سنگین انسانی بحرانوں اور غذائی کمی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔
تصویر : نیوز ایجنسی / فائل
جمہوریہ کانگو اس وقت دنیا کے سب سے سنگین انسانی بحرانوں اور غذائی کمی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

براعظم افریقہ میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اس وقت سنگین بحران کا شکار ہے۔

ایسٹ افریقی ملک روانڈا کی حمایت یافتہ باغی گروپوں نے جمہوریہ کانگو کے اہم شہر گومہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ شہر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کھربوں ڈالر کی معدنی دولت موجود ہے۔ روانڈا کی حمایت یافتہ باغیوں کا گومہ پر قبضہ کرنا افریقہ کی ایک طویل اور پیچیدہ جنگ میں مزید شدت کا سبب بن رہا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں پہلے سے موجود انسانیت سوز بحران مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔

منگل کو اقوام متحدہ کے حکام کے مطابق گومہ شہر میں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، جہاں سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوئی تھیں، لوٹ مار ہو رہی تھی اور بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کی فراہمی بند تھی۔ امدادی تنظیموں نے بتایا کہ گومہ کے 20 لاکھ سے زائد شہریوں کو سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے، جن میں سے 10 لاکھ پہلے ہی تشدد کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق روانڈا کی حمایت یافتہ باغی گروپ ایم 23 کے جنگجو گومہ شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ اس علاقے کے دیگر حصوں پر بھی قابض ہونا چاہتے ہیں، جس کی آبادی تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔

(ایم 23 ایک مسلح گروپ ہے جو جمہوریہ کانگو کے ایسٹ علاقے میں سرگرم ہے۔ اس کا نام 'مارچ 23 تحریک' سے نکلا ہے، جو اس گروپ کے قیام کی تاریخ ہے۔ اس گروپ کا بنیادی مقصد کانگو کی حکومت کے خلاف لڑنا اور مشرقی کانگو کے مخصوص علاقے میں خود مختار حکومت قائم کرنا ہے۔)

تنازعہ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں، آیئے جانتے ہیں:



باغی کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

ایم 23 ایک باغی گروہ ہے جو جمہوریہ کانگو کے مشرقی علاقے میں سرگرم ہے، اور یہ علاقے میں تقریباً 100 مسلح گروپوں میں سے ایک ہے۔ یہ گروہ زیادہ تر ٹُتسی نسل کے افراد پر مشتمل ہے، جو کانگو کی فوج میں شامل ہونے میں ناکام ہو گئے تھے۔ ایم 23 گروہ نے 2012 میں کانگو کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی، لیکن وہ ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد یہ گروہ تقریباً 10 سال تک غیر فعال رہا، مگر 2022 میں اس نے دوبارہ اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔

1996 سے 2003 کے درمیان جمہوریہ کانگو کا مشرقی علاقہ ایک طویل جنگ کا مرکز بنا رہا، جسے ’افریقہ کی عالمی جنگ‘ کہا گیا۔ جہاں مختلف مسلح گروہ دھاتوں اور قیمتی معدنیات جیسے تانبا، کوبالٹ، لیتھیم اور سونا پر قبضہ کرنے کے لیے لڑ رہے تھے۔ اس جنگ میں تقریباً 60 لاکھ افراد کی جانیں گئیں۔

1994 میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے نتیجے میں کانگو میں پیدا ہونے والی صورتحال نے اس تنازعے کو جنم دیا۔ نسل کشی میں ہیٹو ملیشیاؤں نے 5 لاکھ سے 10 لاکھ تک ٹُتسی افراد، اعتدال پسند ہیٹو اور ٹوا (مقامی لوگوں) کو قتل کیا تھا۔ جب ٹُتسی قیادت نے اس ظلم کا مقابلہ کیا، تو تقریباً 20 لاکھ ہیٹو افراد روانڈا سے فرار ہو کر کانگو آ گئے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ انہیں انتقام کا سامنا ہوگا۔ اس کے بعد سے کانگو میں ہیٹو اور ٹُتسی کے درمیان کشیدگیاں بار بار بڑھتی رہیں، جو آج بھی جاری ہیں۔

روانڈا کی حکومت نے ہیٹو افراد کو نسل کشی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ کانگو کی فوج کے کچھ حصوں نے انہیں پناہ دی تھی۔ روانڈا کا کہنا ہے کہ ان ہیٹو ملیشیاؤں کا ایک چھوٹا سا حصہ روانڈا میں ٹُتسی نسل کی آبادی کے لیے خطرہ ہے۔

ایم 23 گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ٹُتسی اور روانڈا کے نژاد کانگولیوں کو امتیاز اور تفریق سے بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایم 23 گروہ کا یہ دعویٰ صرف ایک بہانہ ہے اور اصل مقصد یہ ہے کہ روانڈا مشرقی کانگو میں اپنے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھا سکے۔

ایسٹ کانگو کا کنٹرول اتنا اہم کیوں ہے؟

مشرقی کانگو کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں قیمتی معدنیات ہیں، جو دنیا بھر میں الیکٹرانکس اور بیٹریاں بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں دھاتیں اور قیمتی منرلز موجود ہیں، جو عالمی سپلائی چینز میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، خاص طور پر کوبالٹ جیسا مواد جو بیٹریاں بنانے کے لیے ضروری ہے۔

روانڈا، یوگنڈا، چائنہ اور امریکہ جیسے ممالک کانگو کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، اس لیے ان ممالک کے لیے اس علاقے پر قابو پانا اور اس کے وسائل پر اثر انداز ہونا بہت اہم ہے۔ یہ عوامل کانگو کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

امریکی محکمہ تجارت کے گزشتہ سال کے بیان کے مطابق کانگو کے معدنی وسائل کی مالیت تقریباً 24 کھرب ڈالرز ہے، لیکن ان وسائل کا زیادہ تر حصہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ان وسائل کا فائدہ مقامی لوگوں کو نہیں پہنچ رہا۔

کانگو کی 10 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 60 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور قدرتی وسائل پر لڑائیاں اور تنازعات نے ملک کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔


کیا مسائل کے حل ہونے کا امکان ہے؟

ماہرین کے مطابق اس بار یہ امکان نہیں ہے کہ صورتحال 2012 کی طرح حل ہو جائے گی۔ 2012 میں ایم 23 باغیوں نے گومہ پر قبضہ کیا اور تقریباً ایک ہفتے تک اس پر قابض رہے، لیکن پھر عالمی دباؤ (جس میں امریکہ اور برطانیہ کی امداد روک دی تھی) کی وجہ سے وہ شہر چھوڑ گئے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بار صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے۔ اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے تجزیہ کار ڈیرن ڈیوس کہتے ہیں کہ 2012 میں ایم 23 کے پاس واضح مطالبات تھے جیسے کہ انہیں کانگو کی فوج میں ضم کیا جائے اور سیاسی عمل میں زیادہ حصہ دیا جائے، لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ ایم 23، روانڈا کی مدد سے، گومہ پر قبضہ برقرار رکھنے اور نارتھ کیوو میں سپلائی چین کے راستوں کو کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

باغی گروہ گومہ شہر کو اپنے مفاد کے لیے ایک طاقتور ٹول کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ اس شہر کو اپنی مذاکراتی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ایک قسم کے ’سودے کا سامان‘ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، تاکہ وہ کانگو کی حکومت کے ساتھ بہتر شرائط پر بات چیت کر سکیں۔ جس کی وجہ سے صورتحال کا جلد یا پہلے جیسا حل نکلنا مشکل ہو سکتا ہے۔



جمہوریہ کانگو میں سنگین انسانی بحران

براعظم افریقہ میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اس وقت سنگین بحران کا شکار ہے۔ ساتھ ہی، یہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور اس حوالے سے یہ خطہ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

بچے اپنے گھروں اور اسکولز کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ انہیں ہر روز تشدد، بھوک اور خطرناک بیماریوں کا سامنا ہے۔

  1. 25 لاکھ 40 ہزار لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جن میں سے 13 لاکھ 20 ہزار بچے ہیں۔
  2. 73 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے 37 لاکھ بچے ہیں۔

اس کے علاوہ جمہوریہ کانگو میں اب ایم پوکس (منکی پاس) نامی خطرناک وائرس بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جسے عالمی ادارہ صحت نے صحت کے حوالے سے ایمرجنسی قرار دیا ہے۔

بڑوں کی نسبت بچے اس وائرس کے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ جمہوریہ کانگو میں 70 فیصد کیسز 15 سال سے کم عمر بچوں میں ہیں۔

مارچ 2022 سے شروع ہونے والے تشدد نے خطے میں بھوک کی کمی اور بیماریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2024 کے ابتدائی چار مہینوں میں ہی 9 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔


#جمہوریہ کانگو
#افریقہ
#جنگ
تبصرے

ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔

ابھی تک کوئی کمنٹ نہیں ہے۔

اپنے خیالات کا اظہار کریں!

یہاں پر کلک کرکے دن کی اہم خبریں ای میل کے ذریعے حاصل کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے آپ البائراک میڈیا گروپ کی ویب سائٹس سے ای میلز حاصل کرنے اور ہماری استعمال کی شرائط اور پرائیویسی کی پالیسی کو قبول کرنے سے اتفاق کرتے ہیں۔