اس سال کوپ 29 کا سربراہی اجلاس آذربائیجان کے شہر باکو میں شروع ہوچکا ہے جو 22 نومبر 2024 تک جاری رہے گا۔ دنیا بھر سے ہزاروں لوگ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے بارے میں بات چیت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے پر کوپ سمٹ کو توجہ کم دی جارہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ دوسری بار پیرس معاہدے سے امریکہ کو نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ ممکنہ طور پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے امریکی منصوبے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کاربن کا اخراج کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسیں ہیں جو موسمیاتی تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔
کوپ ممالک اب تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکی کہ دنیا میں گرین انرجی کی طرف لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے درکار رقم کیسے فراہم کی جائے۔
کوپ کا مطلب ’کانفرنس آف پارٹیز‘ ہے اور 29 کا مطلب یہ موسمیاتی تبدیلیوں پر 29واں سالانہ اجلاس ہے۔
دنیا بھر کے 190 ممالک ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے غور کریں گے۔ پہلی کوپ سربراہی کانفرنس 1995 میں جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہوئی تھی۔
اس سال کوپ 29 میں شرکت کے لیے 32,000 سے زیادہ افراد نے رجسٹریشن کرائی ہے۔ ان میں ان تمام 198 ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے۔
2021 میں افغانستان پر طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار افغان طالبان بھی کوپ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اس کےعلاوہ بڑی تعداد میں سفارت کار، صحافی، کلائیمٹ سائنسدان، این جی اوز کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔
پچھلے 15 سالوں سے ترقی یافتہ ممالک نے کمزور ملکوں کی مدد کے لیے ہر سال 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ لیکن اب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہر سال 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
اس کوپ کانفرنس میں تمام ممالک کاربن اخراج کو کم کرنے کے لیے نیا ایکشن پلان پیش کریں گے جس میں بتایا جائے گا کہ وہ کس طرح سے اخراجات کو کم کریں گے۔
کوپ 29 کی میزبانی کرنے والے ملک آذربائیجان کو تنقید کا سامنا ہے کیونکہ یہ تیل اور گیس پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے، جسے کچھ ماہرین موسمیاتی سربراہی اجلاس کے اہداف سے اُلٹ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آذربائیجان کا انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ بھی خراب ہے۔
اگرچہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ضروری ہے لیکن دیگر بڑے مسائل توجہ ہٹا رہے ہیں:
اس وقت دیگر بڑے مسائل ہیں جن پر ممالک کی تقجہ مرکوز ہے۔ مثال کے طور پر:
اس سال ہونے والے کوپ 29 میں یہ بھی بحث ہوگی کہ آیا نئے ممالک خصوصی طور پر چائنہ کو کلائمیٹ فنانس میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ کیونکہ یورپی یونین (جو سب سے بڑا عطیہ کرنا والا ادارہ ہے) کے پاس فنڈز کی کمی ہے اور امریکہ (جو اس قسم کی امداد پر یقین نہیں رکھتا) سے جلد ہی مزید امداد دینے کی توقع نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ماحولیات اور ٹیکنالوجی کے منسٹرز پہلی بار اس کانفرنس میں اکھٹے ہوں گے اور پھر کانفرنس کے آخر میں ایک فائنل معاہدے کی منظوری ہوگی جس میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے نئے وعدے شامل ہوں۔
جن سیاسی رہنماؤں کے شرکت نہ کرنے کی توقع ہے ان میں امریکی صدر جو بائیڈن، چینی صدر شی جن پنگ اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین شامل ہیں۔
اس سے پہلے کوپ 28 میں پیرس معاہدے جیسے اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے، جس کا مقصد تمام ممالک کاربن کے اخراج کو کم کریں، غریب ممالک کو مالی امداد کیسے دی جائے اور یقینی بنانا کہ ہر ملک اپنے وعدے پر پوری طرح عمل کرے۔
ممالک نے پہلی بار توانائی کے نظام میں فوسل فیول کے استعمال کو کم کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم اس کے باوجود اس سال فوسل فیول کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کوپ اجلاس کئی سالوں سے ہورہا ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
یہاں ملکوں کی طرف سے کیے گئے معاہدے اور وعدے صرف باتوں اور ڈاکیومنٹس کی حد تک ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کوپ سمٹ کے انتظامات میں لاکھوں ڈالرز خرچ ہوتے جو پیسوں کا ضیاع ہے اور یہ جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں۔
کچھ لوگ کا دعویٰ ہے کہ کوپ میں صرف امیر ملکوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے زیادہ شکار غریب ملکوں کو فیصلوں میں کم شامل کیا جاتا ہے۔