الیکشن سے چند دن پہلے امریکی صدر بائیڈن کی غلطی نے ہیڈلائنز میں جگہ بنائی۔ ٹرمپ کے حامی ایک کامیڈین نے جب میڈیسن اسکوائر ریلی میں کیریبین ریاست پورٹو ریکو کو کچرے کا ڈھیر قرار دیا تو بائیڈن نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اصل کچرا تو وہ لوگ ہیں جو ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ بائیڈن کی غلطی ایسے ماحول میں سامنے آئی جہاں پنسلوانیا میں تقریباً پانچ لاکھ پورٹو ریکن ٹرمپ کو سپورٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔ بائیڈن اپنے بیان کی صفائی دیتے رہے اور کملا ہیرس نے اُن کے اس بیان سے خود کو یہ کہہ کر الگ کردیا کہ ووٹنگ کے رجحان
الیکشن سے چند دن پہلے امریکی صدر بائیڈن کی غلطی نے ہیڈلائنز میں جگہ بنائی۔ ٹرمپ کے حامی ایک کامیڈین نے جب میڈیسن اسکوائر ریلی میں کیریبین ریاست پورٹو ریکو کو کچرے کا ڈھیر قرار دیا تو بائیڈن نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اصل کچرا تو وہ لوگ ہیں جو ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ بائیڈن کی غلطی ایسے ماحول میں سامنے آئی جہاں پنسلوانیا میں تقریباً پانچ لاکھ پورٹو ریکن ٹرمپ کو سپورٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔ بائیڈن اپنے بیان کی صفائی دیتے رہے اور کملا ہیرس نے اُن کے اس بیان سے خود کو یہ کہہ کر الگ کردیا کہ ووٹنگ کے رجحان کے حساب سے کسی کے متعلق اس طرح حتمی رائے نہیں دینی چاہیے۔ ٹرمپ نے علامتی طور پر امریکی جھنڈوں والے کچرے کی گاڑی پر سوار ہو کر اس صورتحال کو بھرپور انداز میں اپنے حق میں استعمال کیا۔
فاشسٹ اور کچرا
کچرے کے جھگڑے سے یاد آیا کہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ کے حامیوں کو ’باسکٹ آف ڈیپلوریبل‘ یا ’قابل مذمت لوگوں کا گروہ‘ قرار دیا تھا۔ اس بیان سے انہیں الیکشن میں کافی نقصان اٹھانا پڑا، اس بیان سے ان کے متعلق یہ تاثر مضبوط ہوا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی وہ امیدوار ہیں جنہیں زمینی حقائق کا کچھ علم نہیں۔ ایسے ریمارکس سے ٹرمپ کا ایسا امیج سامنے آیا کہ جیسے وہ محروم طبقے کے حقیقی نمائندے ہیں۔ بائیڈن اس طرح کی غلطیوں کے حوالے سے کافی مشہور ہیں اور ان کے اس ریکارڈ کی وجہ سے زیادہ نقصان کا اندیشہ نہیں، کملا ہیرس نے بھی ان الفاظ سے خود کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی اس غلطی کی ٹائنمنگ کملا ہیرس کو اچھا خاصا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ٹرمپ نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے توجہ ہٹانے کے لیے لوگوں کی توجہ کا رخ ڈیموکریٹک پارٹی رہنماؤں کے پرانے بیانات مثلاً ناقابل اصلاح، فاشسٹ اور کچرا کی طرف کردیا۔ ٹرمپ کو پورٹوریکو اور نازی جنرل سے موازنے جیسے بیانات پر تنقید کا سامنا تھا۔ اگرچہ اس حکمت عملی سے ٹرمپ کے حامی ایک بار اکھٹا ہوگئے مگر یہ واضح نہیں کہ ان ووٹرز پر کیا اثر پڑے گا جنہوں نے کسی کو بھی ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ووٹرز میں بڑی تعداد تقسیم پیدا کرنے والی بیان بازی سے تنگ آچکے ہے اور ان کی دلچسپی معیشت ، امیگریشن اور ابورشن جیسے عوامی معاملات میں زیادہ ہے۔ ٹرمپ کی ذاتی دولت کو سامنے رکھا جائے تو ان کے ڈیموکریٹک پارٹی پر ایلیٹ ازم کے الزامات سے بھی ووٹرزیادہ متاثر نہیں ہوں گے۔
ایک تہائی سے زیادہ ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کردیا ہے، دونوں جماعتوں کے الیکشن مہم کی توجہ 5 نومبر کو ووٹرز کو باہر نکالنے پر ہے۔ کملا ہیرس کی مہم کو ڈیموکریٹک پارٹی کی روایتی طور پر عوام میں موجودگی کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ پنسلوینیا جیسی بیٹل گراؤنڈ ریاست میں جہاں ٹرمپ کی ٹیم نے دھاندلی کے الزامات پہلے ہی لگادئیے ہیں وہاں مقابلہ تقریباً برابر کا ہے۔ پورٹوریکن ووٹرز خاص طورپر پنسلوینیا میں فیصلہ کن قوت کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں ، ٹرمپ کی اس کمیونٹی تک حالیہ رسائی ان کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
ہیرس کی آخری ریلی
واشنگٹن ڈی سی میں آخری خطاب کے دوران کملا ہیرس نے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا، انہیں امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قراردیا۔ کملا نے اپنا آخری خطاب وائٹ ہاؤس کے قریب کیا جہاں 2020 میں ٹرمپ کا نتائج کو قبول نہ کرنے پر فسادات کی وجہ بنا تھا، اپنی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کملا ہیرس نے اتحاد کا پیغام دیا۔ مسائل کو عملی طورپر حل کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ آزاد اور غیرجانبدار ووٹرز سے اُن کی اپیل، میڈیسن اسکوائر گارڈن میں ٹرمپ کے جوشیلے بیانات سے بالکل اُلٹ تھی۔ کملا ہیرس نے ابورشن کے حق کی حمایت میں واضح مؤقف اختیار کیا اور آج کے پولرائزڈ ماحول میں اتحاد پر زوردیتے ہوئے ٹرمپ پر تنقید کی اور توازن کو برقرار رکھا۔
خود کو تبدیلی کا امیدوار ظاہر کرتے ہوئے کملا ہیرس نے واشگٹن سے باہر اپنے کیریئرکا ذکر کرکے بطور آؤٹ سائیڈر اپنی اہمیت کو اجاگر کیا، یہ وہ حکمت عملی ہے جس کا اوباما اور ٹرمپ کو فائدہ ہوا تھا۔ اگرچہ کملا ہیرس کو بطور سینیٹر اور نائب صدر کام کا تجربہ ہے تاہم انہوں نے واشنگٹن سے دور اپنے کیریئر کا تذکرہ کیا۔ لیکن بائیڈن کی پالیسیز سے ان کی قریبی وابستگی ان کے اِس آؤٹ سائیڈر کا تاثر دینے کی کوشش کو مکمل طورپر کامیاب نہیں ہونے دیتی جبکہ ٹرمپ ارب پتی بیک گراؤنڈ کے باوجود کامیابی سے آؤٹ سائیڈر ہونے کا دعویٰ کرکے اس سے فائدہ اٹھاچکے ہیں۔
جوں جوں اہم صدارتی انتخاب قریب آرہے ہیں (جس کے امریکہ اور دنیا دونوں پر بڑے نتائج ہو سکتے ہیں) ’کچرے‘ کے بیان جیسے چھوٹے، غیر اہم مسائل پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کیونکہ اس طرح کے اہم انتخابات کے پیش نظر، توجہ زیادہ اہم معاملات پر مرکوز ہونی چاہیے، لیکن اس کے بجائے معمولی تنازعات کی طرف موڑ دیا جا رہا ہے۔ ایک ایسے سیاسی تناظر میں جہاں امریکی عوام اپنے سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کی توقع رکھتے ہیں اور نظام پر اعتماد کم ہوچکا ہے، امیدواروں کی جانب سے توہین آمیز اور تضحیک آمیز بیانات نے شدید عدم اطمینان پیدا کردیا ہے۔
بہت سے ووٹروں کو ایسا لگتا ہے کہ دو بُرے لوگوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے جارہے ہیں۔ اسے کلاسک انتخابی مہم کا ماحول کہا جا سکتا ہے، لیکن لیکن امریکی سیاست میں حقیقی پالیسی کے مسائل کی بجائے شناخت پر مبنی تنازعات پر توجہ مرکوز کرنے کی طرف تبدیلی مستقبل کے لیے پریشان کن ہے۔ بہت سے امریکی ووٹرز اس سیاسی ماحول سے پیدا ہونے والی ناامیدی، بے بسی اور مایوسی کے احساس کے ساتھ ووٹ ڈالیں گے، یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انتخابات کے نتائج کسی حقیقی سیاسی تبدیلی کا ناعث نہیں بن سکتا۔