مشرقِ وسطیٰ کی سرحدیں اور برطانوی اثرو رسوخ

08:2612/11/2024, Salı
جنرل12/11/2024, Salı
طہٰ کلنچ

’ابن سعود کے ساتھ ہمارا دن بہت اچھا گزرا۔ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ سب سے زیادہ متاثر کن لوگوں میں شامل ہیں۔ دومیٹر سے اونچا قد اور پروقار شخصیت، وہ خو کو پرسکون ظاہر کرتے ہیں اور انہوں نے عسکری رہنما کے طور پر اپنی بہادری کو ثابت کیا ہے۔ ان میں فوجی اور سیاسی قیادت کی بھرپور صلاحیت ہے۔‘ یہ الفاظ تھے مشہور برطانوی ایجنٹ اور سیاح گرٹروڈ بیل کے، جنہیں 27 نومبر 1916 کو عراق کے شہر بصرہ میں سعودی عرب کے مستقبل کے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود سے ملاقات کا موقع ملا۔ صحرا میں ان کی ملاقات مشرق وسطیٰ کی

خبروں کی فہرست

’ابن سعود کے ساتھ ہمارا دن بہت اچھا گزرا۔ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ سب سے زیادہ متاثر کن لوگوں میں شامل ہیں۔ دومیٹر سے اونچا قد اور پروقار شخصیت، وہ خو کو پرسکون ظاہر کرتے ہیں اور انہوں نے عسکری رہنما کے طور پر اپنی بہادری کو ثابت کیا ہے۔ ان میں فوجی اور سیاسی قیادت کی بھرپور صلاحیت ہے۔‘

یہ الفاظ تھے مشہور برطانوی ایجنٹ اور سیاح گرٹروڈ بیل کے، جنہیں 27 نومبر 1916 کو عراق کے شہر بصرہ میں سعودی عرب کے مستقبل کے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود سے ملاقات کا موقع ملا۔ صحرا میں ان کی ملاقات مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ کے اہم لمحات میں سے ایک بن گئی ۔

جون 1916 میں جب شریف حسین نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حجاز میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا تو برطانیہ نے دوسرے عرب علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ بغداد میں برطانوی ہائی کمشنر پرسی کوکس نے عبدالعزیز کو خلیج فارس کے ساحلی مقام پر ملاقات کی دعوت دی۔ 11 سے 12نومبر 1916 میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران ہی عبدالعزیز کو کویت میں 23 نومبر کو منعقد ہونے والی ریجنل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ یہ اجلاس برطانوی سرپرستی میں منعقد ہوا اور امیر کویت، جابر بن مبارک الصباح نے میزبانی کی۔ اس اجتماع نے خلیج کے اہم قبائلی رہنماؤں کو اکٹھا کیا۔ پرسی کاکس کا مقصد شریف حسین کی بغاوت کی حمایت کے لیے عرب رہنماؤں کو اکٹھا کرنا تھا۔ ابن سعود نے ہچکچاہٹ کے ساتھ بغاوت کی حمایت کا وعدہ کیا، لیکن اس کا اصل مقصد کویت-عرب سرحد کے لیے اپنے حق میں سرحدی معاہدہ کرنا تھا۔

کویت میں وقت گزارنے کے بعد ابن سعود 27 نومبر کو ایک ملاقات کے لیے بصرہ چلے گئے، جس میں گرٹروڈ بیل نے شرکت کی، ان سے سرحدی مسائل پر بات چیت کی توقع تھی۔ مگر انگریزوں کا مقصد فوجی طاقت دکھا کر اپنی برتری ظاہر کرنا تھا۔ درحقیقت، پرسی کاکس نے عبدالعزیز کے لیے ایک سفر کا منصوبہ بنایا تھا جس میں فوجی محاذوں کے دورے اور جنگی مشقوں کے جائزے شامل تھے۔ عبدالعزیز نے سیاسی سمجھ بوجھ کا اظہار کرتے ہوئے برطانوی حکام کے خطے میں دلچسپی کےاظہار کا جواب دیا۔ انہوں نے اس زمین کے حصول کی خواہش ظاہر کی جو کویت کے حوالے کی جانے والی تھی۔ برطانوی حکام یہ کہنے پرمجبور ہوگئے کہ ’وہاں تیل بھی ہوسکتا ہے‘۔ برطانوی منصوبہ واضح تھا، وہ کویت کو ایک اسٹریٹجک مقام کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قدیم بصرہ بندرگاہ سے بچنا چاہتے تھے جہاں دجلہ اور فرات دریا ملتے ہیں۔ کویت کا مقام اور تیل کے وسیع ذخائر خطے میں جاری کشیدگی کو جنم دیں گے۔

سرحدیں تناؤ کا مرکز ہوتی ہیں اور برطانوی سلطنت نے، ہر اس سرزمین پر جس پر اس کا کنٹرول تھا، اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ سرحدیں اس طرح کھینچی جائیں جس سے ملکوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیا تک اسلامی دنیا میں آج جہاں جہاں سرحدی تنازعات ہیں، وہاں اکثر برطانیہ کا عمل دخل جاسکتا ہے۔

جب جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور نئی سرحدیں طے کی جا رہی تھیں، برطانوی دباؤ نے ہماری اصل سرحدوں کو شامل کرنے سے روک دیا، جسے ’قومی معاہدہ‘ (میثاقِ ملی) کہا جاتا ہے۔ لندن کا یہ اثر و رسوخ ایک بڑی وجہ تھی کہ ترکیہ عراق کی نئی ہاشمی بادشاہت کے ساتھ کرکوک اور موصل کو اپنی سرحدوں میں شامل کرنے کے معاہدے تک نہیں پہنچ سکا۔

ترکیہ کے مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں کی سرحدیں اس طرح کھینچی گئیں جو مستقبل میں تنازعات کا باعث بنے۔ ایسا سوچنا نادانی ہوگی کہ سامراجی قوتیں مشرق وسطیٰ جیسے پانی اور معدنی وسائل سے مالا مال خطے کو نظر انداز کردیں گی۔ اس مشکل دور میں ترکیہ کو چوکنا رہنا ہوگا، اس کے استحکام کو نشانہ بنانے والے منصوبوں میں شدت آسکتی ہے۔ یقینی بنانا ہوگا تاریخ کے تکلیف دہ تجربات دوبارہ پیش نہ آئیں۔



#مشرق وسطیٰ
#ترکیہ
#برطانیہ