سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ورکرز اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کارکنان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پشاور سے اسلام آباد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر صوبوں اور شہروں سے بھی پی ٹی آئی کارکنان اسلام آباد کے لیے نکلے ہیں۔
عمران خان کی کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی اس قافلے میں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے عہدیدار عرفان سلیم کا کہنا ہے کہ اگر انہیں راستے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑا تو وہ شام سات بجے تک اسلام آباد میں داخل ہو سکتے ہیں۔
پنجاب اور بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اور پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اب تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے احتجاج کرنے والے 800 کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس بار ان کے ورکرز چار مطالبات لے کر دارالحکومت آ رہے ہیں۔
عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے پیغام میں کہا گیا کہ ’میں تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ 24 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں اور مطالبات کی منظوری تک واپس نہ جائیں‘۔
1. عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی
2. 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ
3. جمہوریت اور آئین کی بحالی
4. مینڈیٹ کی واپسی
یاد رہے کہ اگست 2023 میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے جیل میں جانے اور اس سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے متعدد احتجاجی مظاہرے کیے تھے، اس دوران ان کے کئی رہنماوٴں، درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے جب بھی احتجاج کی کال دی تو اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پارٹی کارکنان کے درمیان تصادم اور جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ یاد رہےکہ ایک مہینے پہلے اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران بھی پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دی تھی لیکن بعد میں احتجاج کی کال کینسل کردی تھی۔
پی ٹی آئی کارکنوں کی آخری منزل ڈی چوک پہنچنا ہے۔ ڈی چوک اسلام آباد کا مرکز کہلاتا ہے جس کے ارد گرد وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ جیسی اہم سرکاری عمارتیں ہیں۔
ڈی چوک کا اصل نام ڈیموکریسی چوک ہے۔ جسے سیاستدان اپنے احتجاج یا دھرنوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ چوک اسلام آباد کی دو مرکزی سڑکوں پر واقع ہے اس لیے یہاں لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اتوار کو کہا تھا کہ پولیس علاقے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور جس نے بھی وہاں احتجاج کرنے کی کوشش کی اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد کے تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد پولیس نے احتجاج کے پیش نظر شہر کے اہم راستے بند کر دیے ہیں اور تقریباً 24 اہم مقامات بند کیے جا چکے ہیں۔
شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینرز لگا کر بند کردیے گئے ہیں۔ فیض آباد میں تمام بس اڈے بند کر دیے گئے ہیں جب کہ موٹروے ایم ون اور ایم ٹو پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ایم ون کو اسلام آباد سے پشاور اور ایم ٹو کو اسلام آباد سے لاہور جانے والے مسافروں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ جب کہ ان دونوں موٹرویز پر سفر کرنے والوں کو صرف ایگزٹ کی اجازت دی گئی ہے۔
جب کہ ایران ایونیو اور مارگلہ روڈ کو دونوں اطراف سے کنٹینرز لگا کر مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورت ھال سے بچا جا سکے۔
دوسری جانب اسلام آباد کے شہریوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس اور واٹس ایپ سے ڈاؤن لوڈ میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ترجمان وزارت داخلہ کے حکام نے ینی شفق کو بتایا کہ ’صرف کچھ سکیورٹی علاقوں میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے موبائل ڈیٹا اور وائی فائی سروس بند ہے اور ملک کے دوسرے شہروں میں انٹرنیٹ سروسز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ معمول کے مطابق چلتی رہیں گی‘۔
جب کہ دوسری طرف پاکستان کی نیشنل کاونٹرٹیرارزم اتھارٹی نے تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران خود کش حملوں اور دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ہائی الرٹ جاری کیا ہے۔
نیکٹا کے تھریٹ الرٹ کے مطابق دہشت گردوں نے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسے میں خود کش حملے کرانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جس کے بعد وزارت داخلہ نے تمام اداروں کو دہشتگردی کے واقعات سے بچنے کے حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
راولپنڈی انتظامیہ نے احتجاج کی وجہ سے تمام ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز خالی کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ہدایات کے مطابق 23 نومبر کی صبح 8 بجے تک تمام ہوٹلز خالی کر دیے جائیں گے۔ ہوٹل انتظامیہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ 24 نومبر سے کسی بھی مہمان کو کمرہ نہیں دیں گے۔ پولیس نے تھانہ نیوٹاؤن اور دیگر علاقوں میں ہوٹل مالکان کو وائس میسجز کے ذریعے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے شہر کے تمام پرائیوئٹ ہاسٹلز کی انتظامیہ کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے ہاسٹلز کو فوری خالی کروائیں۔
طلبا کو 22 نومبر کی رات کو ہاسٹل انتظامیہ کی جانب سے یہ پیغام ملا ہے آپ صبح سویرے ہاسٹل خالی کر دیں ورنہ قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جس کی وجہ سے طلبہ میں تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔
احتجاج کی وجہ سے شہر بھر میں میٹرو بس سروس بھی متاثر ہوئی ہے جس کے باعث شہری پریشان ہیں۔ 23 نومبر کو اسلام آباد میں میٹرو بس سروس مکمل طور پر بند رہے گی۔ آئی جے پی روڈ سے پاک سیکریٹریٹ تک سروس معطل رہے گی، جبکہ راولپنڈی میں میٹرو بس سروس جزوی طور پر بحال رہے گی اور صدر اسٹیشن سے فیض آباد تک چلے گی۔
24 نومبر کو میٹرو بس سروس جڑواں شہروں میں مکمل طور پر بند رہے گی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق، سیکیورٹی خدشات کے باعث یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔
شہر کی انتظامیہ اور پولیس نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں ضرورت کے بغیر باہر نا نکلیں۔ شہری انٹرنیٹ بندش اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے پریشان اور شکایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔