دنیا کی کم عمر نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے چند سالوں میں خواتین کے حقوق اس حد تک محدود کر دیے گئے ہیں کہ وہ گنگنا بھی نہیں سکتیں۔
یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی پر 2012 میں طالبان نے حملہ کیا تھا اور اس حملے کے بعد وہ تقریباً موت کے منہ میں چلی گئیں تھیں۔ انہیں علاج کے لیے امریکہ بھیجا گیا تھا اور صحت یاب ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔ تب سے لے کر وہ خواتین کی تعلیم پر پابندیوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں جدوجہد کرتی ہیں۔
دسمبر 2014 میں ملالہ یوسفزئی نوبیل امن انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بن گئیں۔ 2017 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ملالہ کو عالمی طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا امبیسیڈر برائے امن مقرر کیا تھا۔
ملالہ نے حال ہی میں بی بی سی ایشین نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ خواتین کے حقوق اتنی آسانی سے چھین لیے جائیں گے۔
افغانستان میں 2021 میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خواتین کو متعدد بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں خواتین کے خلاف ‘اخلاقی قوانین‘ کو ’جنس پر مبنی امتیاز‘ یا ‘جینڈر اپارتھائیڈ’ بھی کہا جا رہا ہے۔ ان قوانین کے تحت افغان خواتین پر مکمل پردہ کرنا لازم ہے، کسی مرد سرپرست کے بغیر سفر کرنے پر پابندی عائد ہے اور یہاں تک کہ نامحرم مردوں کے ساتھ نظریں ملانے پر بھی پابندی ہے۔
ملالہ کا کہنا ہے کہ ’طالبان یہ بات جانتے ہیں کہ اگر خواتین کے حقوق چھیننے ہیں تو انہیں تعلیم کے حق سے محروم کرنا شروع کردیں۔‘ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے ایک ملین سے زائد لڑکیاں اسکول نہیں جا رہیں اور 2022 میں تقریباً ایک لاکھ خواتین کو یونیورسٹی کورسز پڑھنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
افغان خواتین کی موجودہ صورتحال پر ملالہ نے کہا کہ ’وہاں خواتین اب بھی اندھیرے میں زندگی گزار رہی ہیں، لیکن وہ مزاحمت کر رہی ہیں۔‘
ملالہ ان دنوں ایک نئی ڈاکیومنٹری ’بریڈ اینڈ روزز‘ پر بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر کام کر رہی ہیں، جو طالبان کے زیرِ اقتدار زندگی گزارنے والی تین افغان خواتین کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ یہ فلم ان خواتین کے روزمرہ کے چیلنجز اور جدوجہد کو پیش کرتی ہے۔
فلم کی ڈائریکٹر افغان فلم میکر سہرا مانی ہیں جنہوں نے افغان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر ڈایکیومنٹریز تیار کیں ہیں۔ انہوں نے ان خواتین سے ویڈیوز حاصل کیں جو مظاہروں میں شامل تھیں اور طالبان کے ظلم وجبر کا سامنا کر رہی تھیں۔
ملالہ کا کہنا ہے کہ افغان خواتین کی مزاحمت ہمارے لیے امید کی کرن ہے۔ ’ان کے حوصلے اور بہادری سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔ وہ طالبان کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہیں اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کو سپورٹ کریں۔‘