پاکستان کے سینئر صحافی اور یوٹیبوبر مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال سے ’سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اغوا‘ کر لیا گیا۔
صحافی مطیع اللہ جان کے بیٹے نے الزام عائد کیا کہ پولیس اُن کے والد کے خلاف درج ایف آئی آر کی کاپی نہیں دے رہی۔ بیٹے عبدالرزاق نے جمعرات کی صبح تھانہ جی نائن میں اپنے والد کے اغوا کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کے بیٹے نے دعویٰ کیا کہ اُن کے والد کو اسلام آباد کے مارگلہ پولیس سٹیشن میں رکھا گیا تھا۔ اُن کی والدہ اور بہن کی مطیع اللہ جان سے ملاقات بھی اسی تھانے میں کروائی گئی تھی۔ بیٹے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے والد مطیع اللہ جان کو اس تھانے سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ حکام کی جانب سے ایف آئی آر کی کاپی بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مطیع اللہ جان کے ’ایکس‘ اکاوٴنٹ کے ذریعے پوسٹ کیے گئے ویڈیو پیغام میں بیٹے عبدالرزاق نے کہا کہ ’میرے والد کو صحافی ثاقب بشیر کے ساتھ نامعلوم افراد نے اٹھا لیا، وہ نامعلوم افراد تھے، انہوں نے اپنا کوئی تعارف نہیں کروایا کہ پولیس یا رینجرز سے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’اغوا کا واقعہ ستائس نومبر کو گیارہ بجے کے لگ بھگ اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ میں پیش آیا۔‘
دائر درخواست میں مطیع اللہ جان کے بیٹے نے بتایا کہ ’اغواکاروں نے کچھ دیر بعد ثاقب بشیر کو چھوڑ دیا،‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ والد کے اغوا کی اطلاع صحافی ثاقب بشیر نے صبح چار بجے دی تھی۔
صحافی ثاقب بشیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’کچھ افراد نے ہم دونوں کے چہروں پر کپڑا ڈالا اور زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ دس منٹ کے بعد ہم دونوں کو ایک کمرے میں بیٹھایا گیا، لیکن کپڑا منہ سے نہیں اتارا۔ اِن افراد نے مجھے (ثاقب) مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں ہے، اس لیے ہم آپ کو کچھ نہیں کہتے۔‘
اُن کے مطابق جب انہیں کمرے میں بٹھایا گیا تو وہ لوگ ہم دونوں سے یہی پوچھتے رہے کہ چائے تو نہیں پینی؟ سردی تو نہیں لگ رہی؟ واش روم تو نہیں جانا؟‘
ثاقب بشیر نے مزید کہا کہ اغوا کرنے والے افراد نے انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا اور دو گھنٹے کے بعد آئی نائن کے قریب ایک ویران جگہ پر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
ثاقب بشیر نے بتایا کہ وہ اور مطیع اللہ جان پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مظاہرین کی مبینہ ہلاکتوں کی تصدیق کرنے کے لیے پمز گئے تھے۔
یاد رہے کہ 24 نومبر کو پی ٹی آئی نے اسلام آباد ڈی چوک پر احتجاج کی کال دی تھی، تمام رکاوٹیں عبور کرکے پی ٹی آئی مظاہرین 26 نومبر کو ڈی چوک پہنچے تھے۔ اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ کی، گولیاں چلائیں جس کے ردعمل میں پی ٹی آئی مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراوٴ کیا گیا اور گولیاں چلائی گئیں۔ منگل کی رات گئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈی چوک کے قریب تمام مارکیٹس اور علاقوں کی لائٹس بند کروادیں اور اندھیرے میں گرینڈ آپریشن کیا جس میں قریب 800 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس، رینجرز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار سمیت چار رینجرز کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ملی، جبکہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کارکنوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آرہی جس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی۔