کوئٹہ میں 11 سالہ طالب علم محمد مصور کے اغوا کے خلاف احتجاج اتوار کو مسلسل تیسرے دن بھی جاری رہا۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے طالب علم کو بازیاب نہ کروانے کے خلاف بچے کی فیملی، قبائلی برادری اور سیاسی ورکرز نے مختلف علاقوں میں سڑکیں اورشاہراہیں بند کر دیں۔
ڈان اخبار اور ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق طالب علم محمد مصور کو تین دن پہلے پٹیل باغ کے علاقے سے مسلح افراد نے سکول سے گھر جاتے ہوئے ایک وین سے اغوا کر لیا تھا۔ بچہ ایک مشہور قبائلی سردار کا بیٹا ہے۔
طالب علم کے اغوا کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے شمالی علاقوں سے ملانے والی کوئٹہ چمن شاہراہ بلاک کردی۔ اس اہم شاہراہ کے بلاک ہونے کی وجہ سے کوئٹہ، چمن، پشین، ژوب اور لورالائی کے درمیان ٹریفک گھنٹوں رکا رہا۔ شاہراہ کی بندش سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر ایکسپورٹ بزنس بھی متاثر ہوئے۔
مظاہرین نے مین زرغون روڈ کو سرینا چوک پر اور ایئرپورٹ روڈ کو کو بھی بلاک کردیا۔ جس کی وجہ سے مختلف سڑکوں پر کئی گھنٹوں کے لیے ٹریفک جام ہو گیا اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
رات کو مظاہرین نے سڑکیں کھول دیں لیکن ساتھ ہی اعلان کیا کہ طالب علم کی بازیابی تک احتجاج جاری رہے گا۔
تاجروں کی تنظیم سینٹرل ٹریڈرز ایسوسی ایشن آف بلوچستان کے صدر محمد رحیم کاکڑ نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ منگل 19نومبر کو بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے خلاف کوئٹہ میں ہڑتال کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تین دن گزرنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے ظالب علم کو بازیاب کرانے میں ناکام رہے ہیں۔