لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ اور اسرائیل فورسز کے درمیان پچھلے 14 مہینوں سے لڑائی جاری تھی جسے ختم کرنے کے لیے امریکا، فرانس کی مدد سے سیز فائر کا معاہدہ طے پایا۔
جنگ بندی معاہدے کو پہلے واشنگٹن، پھر اسرائیلی پارلیمنٹ اور پھر لبنانی حکومت نے منظور کیا۔
یہ معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر مبنی ہے۔
اسرائیل کی فوج ساوٴتھ لبنان سے نکل جائے گی
حزب اللہ اپنے بھاری ہتھیاروں کو دریائے لیتانی کے نارتھ سے تقریباً 16 میل (25 کلومیٹر) دور لے جائے گی۔
جن علاقوں میں حزب اللہ نے کنٹرول سنبھالا تھا اب وہاں لبنان کے 10,000 فوج اہلکاروں کا کنٹرول ہوگا۔
لبنانی فوج یہ یقینی بنائے گی کہ اسلحے کی سمگلنگ نہ ہو، حزب اللہ کے ٹھکانے قائم نہ ہوں۔
لبنانی اور اسرائیلی شہری اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔
اور یہ سب کچھ 60 دنوں کے اندر ہوگا۔
جنگ بندی کو کامیاب بنانے کے لیے لبنانی فوج نگرانی کرے گی، اس کے ساتھ ایک انٹرنیشنل فورس بھی شامل ہوگی جس کی قیادت امریکہ کرے گا اور اس میں فرانس کے فوجی شامل ہوں گے جو صورتحال پر نظر رکھیں گے۔
اگرچہ حزب اللہ لبنان کی حکومت کا حصہ ہے، لیکن اس کے فائٹرز لبنانی فوج کا حصہ نہیں ہیں۔ جنگ بندی معاہدے کے مطابق صرف لبنان کی سرکاری فوج اور سیکورٹی فورسز کو ہتھیار لے جانے کی اجازت ہوگی۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا کہ ’ساوٴتھ لبنان میں حزب اللہ کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ سیز فائر کو ’دشمنی کے مستقل خاتمے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
13 پوائنٹس پر مشتمل اس معاہدے پر اسرائیل اور لبنان کی حکومتوں نے دستخط کیے۔ جبکہ حزب اللہ کے کسی رہنما کے دستخط نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت نے اپنی سرزمین میں حزب اللہ اور دیگر مسلح گروپس کو اسرائیل کے خلاف کارروائیوں سے روکنے پر اتفاق کیا ہے۔
بدلے میں اسرائیل نے لبنان میں سویلین، فوجی، یا سرکاری مقامات سمیت کسی بھی مقام پر فوجی آپریشن نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اکتوبر 2023 سے اسرائیلی حملوں سے لبنان میں تقریبا 12 لاکھ افراد کو بے گھر ہوئے اور 3 ہزار 768 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیل نے لبنان میں تقریبا 37 دیہاتوں کو تباہ کر دیا ہے اور بیروت، نبطیہ اور صور کے بڑے شہروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
اس معاہدے کے ساتھ لبنان اور اسرائیل کے شہریوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت دی جائے گی لیکن جنوبی لبنان میں تباہی اتنی زیادہ ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے لوگ واپس آ سکیں گے۔
لبنان کے شمال میں رہائشیوں کی واپسی کے بارے میں شبہ ہے کیونکہ کئی لوگ جنگ بندی پر بھروسہ نہیں کرتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کم از کم کچھ سالوں کے لیے قائم رہ سکتی ہے۔ لبنانی امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر عماد سلمی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’اگر ایران کو شامل کیے بغیر کوئی سیاسی معاہدہ نہ ہوا تو جنگ بندی عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ان حالات میں جنگ بندی سے کئی سال تک امن قائم کرہ سکتا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق حزب اللہ ان حملوں اور زمینی کارروائیوں کے بعد کمزور ہو چکی پے۔
پروفیسر عماد سلمی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’حزب اللہ شاید اندرونی طور پر خود کو مضبوط کرنے پر توجہ دے، تاکہ وہ لبنان کی ریاست میں اپنی اہمیت برقرار رکھے اور لبنان کے سیاسی مستقبل کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔‘