یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران یونان کے قریب بحیرہ روم میں غیر قانونی تارکین وطن کی تین کشتیاں الٹ گئیں جس کے نتیجے میں 40 پاکستانی ہلاک ہوگئے۔
اس سے قبل کشتی الٹنے کے واقعے پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ حادثے میں پانچ پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ تقریباً 47 پاکستانیوں کو بچالیا گیا ہے لیکن درجنوں لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ تاہم آج دفتر خارجہ نے لاپتہ پاکستانیوں کو مردہ قرار دے دیا اور سمندر میں ریسکیو آپریشن روک دیا ہے۔
کشتی الٹنے کا یہ حادثہ ہفتے کے روز پیش آیا تھا جب تارکین وطن کی تین کشتیاں سمندر میں ڈوب گئی تھی جو لیبیا سے روانہ ہوئی تھی۔
یونان میں پاکستان کے سفیر عامر آفتاب قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یورپ جانے کی کوشش میں تین کشتیاں ڈوبی ہیں جن میں 80 سے زائد پاکستانی شہری سوار تھے، جن میں بچے بھی شامل تھے۔ یہ کشتیاں لیبیا کے علاقے سے جاری رہی تھیں۔
عامر آفتاب نے حادثے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کشتی لمبائی میں بہت کم تھی۔ ایسی کشتیاں عام طور پر مچھلی پکڑنے یا چھوٹے سفر کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور ان میں صرف 15 سے 20 لوگوں کو بٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے اور زیادہ لوگوں کے سوار ہونے کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے۔
پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ یونان کی حکومت نے تازہ ترین معلومات بھیجی ہیں جس کے مطابق ابتدائی طور پر پانچ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ پاکستانی ایمبیسی نے یونان کی حکومت سے رابطہ کیا ہے تاکہ اس حادثے میں بچ جانے والوں کی مدد کی جا سکے اور ہلاک ہونے والے لوگوں کی میتیں ملک میں واپس لائی جائیں۔
حکام کے مطابق اگرچہ اس حادثے کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی شہریوں کی اصل تعداد کا علم نہیں تاہم یہ درجنوں میں ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پچھلے سال 2023 میں بھی سیکڑوں تارکین وطن اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ایک بڑی کشتی یونان کے ساحل کے قریب الٹ گئی تھی۔ یہ حادثہ بحیرہ روم کی تاریخ کے بدترین حادثوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
یونان کے حکام کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ میں جاری جنگوں اور مسائل کی وجہ سے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ اپنے ملکوں سے نکل کر بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ جانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یونان کو یورپ جانے کے لیے ایک اہم راستہ مانا جاتا ہے۔
2015-2016 میں لاکھوں لوگ مڈل ایسٹ اور افریقہ سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے یونان کے جزیروں پر پہنچے تھے اور ہر سال اس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے بعد سے یونان کے جزیرے، خاص طور پر کریٹ اور اس کے قریب چھوٹے جزیرے تارکین وطن کے لیے خطرناک سمندری سفر کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔
ہلاک افراد کی تصدیق
ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹوٹل تین کشتیاں تھیں جو یونان کے پانیوں میں ڈوب گئیں جو لیبیا سے روانہ ہوئی تھیں۔ پہلی کشتی میں کل 45 افراد سوار تھے جن میں سے چھ پاکستانی تھے۔ دوسری کشتی میں کل 47 مسافر سوار تھے جن میں پانچ پاکستانی شہری شامل تھے۔ تیسری کشتی میں 83 افراد سوار تھے جن میں 76 پاکستانی، تین بنگلہ دیشی، دو مصری اور دو سوڈانی شہری تھے۔
تیسری کشتی سے مجموعی طور پر 39 افراد کو بچا لیا گیا جن میں سے 36 پاکستانی شہری تھے۔ اور جو پانچ لاشیں برآمد ہوئی ہیں وہ تیسری کشتی میں سفر کرنے والے مسافروں کی ہیں جن کی شناخت پاکستانیوں کے طور پر ہوئی ہے۔
ہلاک ہونے والوں کی شناخت سفیان، رحمان علی، حاجی احمد اور عابد کے نام سے ہوئی ہے۔ جبکہ پانچویں مقتول کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں کا تعلق سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤالدین سے تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچائے گئے افراد میں ایک سوڈانی ڈرائیور کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کی دکھ بھری داستان
کشتی کے واقعے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانی متاثرین یونان کے ایک کیمپ میں مقیم ہیں، انہوں نے کشتی الٹنے کے حادثے کی تفصیلات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جس کشتی پر سوار تھے اس کا نہ انجن ٹھیک تھا، نہ واکی ٹاکی اور نہ جی پی ایس ٹھیک تھا، حادثے کے بعد کارگو شپ نے ہمیں بچایا، ہمارے کپڑے، موبائل اور جوتے سب بہہ گیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان سے لیبیا پہنچے تھے وہاں ڈیڑھ دو ماہ بہت مشکل میں گزارے اور لیبیامیں ڈیڑھ دو مہینےرہے، وہاں سے 11 دسمبرکو شپ نکلی تھی۔
متاثرین نے کہا کہ ہماری مدد کی جائے، آئندہ کوئی بھی غیر قانونی طور پر سفر نہ کرے۔
جاں بحق ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کے عزیز و اقارب نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ایجنٹس کو ایک شخص کے 21 سے 22 لاکھ روپے دیے تھے۔
جاں بحق افراد میں 13 سالہ محمد عابد بھی ہیں، ان کے والد جاوید اقبال نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عابد کہتا تھا کہ اگر باہر بھجوانے کےلیے پیسوں کا انتظام نہ کیا تو وہ گھر چھوڑ دے گا، یہ صورتحال دیکھ کر مجبوراً انہوں نے اپنی زرعی زمین کا ایک حصہ بیچنے کا فیصلہ کیا، کچھ زیورات عابد کی والدہ نے بیچے جس کے بعد انہوں نے ایجنٹ کو 26 لاکھ روپے کی رقم ادا کی۔‘
جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اُن کا بیٹا فیصل آباد ایئرپورٹ سے مصر اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچا۔ والد کے مطابق ان کے بیٹے نے لگ بھگ دو ماہ لیبیا میں قیام کیا جس کے بعد وہ اُس کشتی میں روانہ ہوا جو یونان میں ڈوب گئی۔