اسرائیل کے سابق آرمی چیف موشے یالون نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ میں جنگی جرائم اور نشل کشی میں ملوث ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے بعد اب اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور وزیر دفاع موشے یالون نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل غزہ میں عربوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
اتوار کو اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ نیتن یاہو کی کابینہ فلسطینیوں کو نارتھ غزہ سے بے دخل کر کے وہاں دوبارہ یہودی آبادی بسانا چاہتے ہیں۔ ’جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ ہم سے چھپایا جارہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جس راستے پر ہمیں لے جایا جا رہا ہے وہ نسل کشی کا ہے۔‘ آخر وہاں کیا ہو رہا ہے؟ اب وہاں کوئی بیت لاحیہ یا کوئی بیت ہانون نہیں ہے، فوج نے جبالیہ میں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور اصل میں وہاں عربوں کا صفایا ہو رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ موشے یالون نے 2013 سے 2016 تک نیتن یاہو کی حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر کام کیا ہے اور وہ نیتن یاہو کی پالیسیز کے سخت مخالف رہے ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو کی سیاسی پارٹی لیکود نے موشے یالون پر جھوٹے الزامات لگانے کا دعوٰی کیا ہے۔
واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے پچھلے مہینے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ ان پر غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات ہیں۔
ایک طرف حالیہ دنوں میں اسرائیلی فوج کے نارتھ غزہ پر حملوں میں شدت آئی ہے، جس کی وجہ سے عام شہری اس علاقے سے چلے جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب کہ اسرائیل کا دعوٰی ہے کہ ان حملوں کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنا ہے۔
دوسری جانب جمعرات کو ایک اسرائیلی وزیر نے غزہ کی پٹی کا دورہ کیا اور کہا کہ یہاں یہودی بستیاں دوبارہ آباد کی جائیں گی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’اس جگہ یہودی آبادیاں 7 اکتوبر کے قتل عام اور ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ کا جواب ہے‘۔
واضح رہے کہ کئی ممالک 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی طرف سے قبضہ کرکے بنائی گئی آبادیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہیں اور انہیں بڑے پیمانے تک پھیلانا امن کی راہ میں رکاوٹ ہے، کیونکہ یہ زمین فلسطینیوں کی علیحدہ ریاست کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ لیکن اسرائیل مسلسل فلسطینیوں کو اس سرزمین سے باہر دھکیل رہا ہے۔