امریکہ کے صدارتی الیکشن گزر چکے ہیں مگر دنیا لمبے عرصے تک ان کے سیاسی اثرات محسوس کرے گی۔ ایک ایسی عالمی سوچ، جس نے انسانیت کو انتشار کی طرف دھکیلا، انسانی جینیات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، جائز کو ناجائز قرار دیا اور اقدار کو نظر انداز کیا، اُسے الیکشن سے دھچکا پہنچا ہے۔
اقدار کو نظر انداز کیا ہے، سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اب اسے اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔
یہودی بالادستی کے نظریے پر قائم یہ صہیونی عالمی ذہنیت بعض اوقات سازشی تھیوری کی طرح لگتی ہے، لیکن امریکی عوام نے ایک فیصلہ کیا جس میں اشرافیہ کے گروہ پر اپنے مفادات کو ترجیح دی گئی۔ یہ حقیقت کہ پوری دنیا کی نظریں امریکی الیکشن کی رات پر تھیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلیاں نہ صرف امریکہ پر اثر انداز ہوں گی بلکہ دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آسکتی ہیں۔
امریکا میں صرف 15 فیصد شہری عالمی میڈیا مثلاً سی این این، فاکس، سی این بی سی، بلومبرگ، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ کی خبروں پر یقین کرتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ کے اندرون ایلیٹ طبقے پر ان میڈیا چینلز کا اچھا خاصا اثرورسوخ ہے۔ اسی طرح کی غلطی اس وقت ہوئی جب ٹرمپ پہلی بار منتخب ہوئے، کیونکہ چند چھوٹی ریسرچ ٹیموں کے علاوہ تقریباً سبھی نے پیش گوئی کی تھی کہ ہلیری کلنٹن جیت جائیں گی۔
عالمی میڈیا کا اثر نہ صرف امریکی بلکہ عالمی سطح پر ان کے ناظرین کو متاثر کرتا ہے۔ بیشتر ریسرچ کمپنیوں کی ڈیموکریٹس سے قربت نے میڈیا اور پولنگ سیکٹر کے درمیان فرق کو ختم کردیا ہے۔
ترکیہ میں بھی گزشتہ صدارتی انتخابات میں ایسی ہی صورتحال سامنے آئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 20 پولنگ ریسرچ کمپنیوں اور بائیں بازوں کے حامی کمالسٹ میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کلچ داراوغلو 55 سے 60 فیصد اکثریت لے کر جیت جائیں گے۔ انہوں نے بھی اپنی مرضی کے نتائج کی پیش گوئی کی تھی تاہم حقیقت اس کے برعکس تھی۔
تین اہم مسائل امریکی انتخابات پر اثر انداز ہوئے: معیشت، امیگریشن اور ڈیموکریٹک ووٹروں پر غزہ تنازعہ کے اثرات ہیں۔ اس کےعلاوہ ایل جی بی ٹی لابی کی جانب سے خاندانی نظام کو لاحق خطرات کو بھی نظر انداز کیا گیا۔
توقع ہے کہ ٹرمپ براہ راست امریکہ کے اندرونی مسائل پر توجہ دیں گے اور یورپ کے لیے ان کے پاس کم ہی وقت ہوگا۔ بائیڈن کے دور سے پہلے یورپ انتشار کا شکار تھا۔ بائیڈن نے یورپ کو متحد کرنے کی کوشش کی جس کی قیمت یوکرین جنگ میں نقصان کی صورت میں چکانا پڑی۔ جرمنی، فرانس اور ترکیہ میں قریبی تعلقات اس عرصے کے ایجنڈے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر یوکرین کی جنگ ختم ہوگئی تو جرمنی اور روس کے تعلقات میں پھر بہتری آسکتی ہے مگر یورپی اقوام کے جیوپولیٹکل نقصان کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔
ٹرمپ روس کے ساتھ تنازعے سے بچنے، چائنہ اور ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ معاشی اورعالمی مقابلہ بازی کی وجہ سے ان کی زیادہ توجہ چائنہ پر رہے گی۔ سعودی عرب اور گلف ممالک کے ساتھ 500 ارب ڈالر کی ہتھیاروں کی ڈیل پر دوبارہ کام شروع ہونے کا بھی امکان ہے۔ چائنہ کے خلاف ’انڈیا کارڈ‘ کو مضبوط کرنا بھی ایک اہم کام ہوسکتا ہے، انڈیا کی برِکس رکنیت اسے مزید اہم بناتی ہے۔
اگر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں یوکرین میں جنگ ختم ہوگئی تو شام میں امریکہ، ترکیہ اور روس کے درمیان اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال میں ایران کا رد عمل کیا ہوگا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایران کا انتشار کا نظریہ کھل کر سامنے آرہا ہے۔ ایران کی اپنے پڑوسی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی حکمت عملی الٹا جواب دینے لگی ہے ور خود ایران کو خطرہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکیہ اور عراق کی جانب سے استحکام کی کوششوں کو سپورٹ کرنے کے سوا ایران کے پاس کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
بائیڈن کے دور میں ایل جی بی ٹی لابی زور پکڑ گئی تھی اور اسے انسانیت کے لیے سنگین خطرہ سمجھا جارہا تھا۔ اس کو تیزی سے روکنے میں روسی صدر پیوٹن، ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے نمایاں کوششیں کیں۔ امریکہ ان تبدیلیوں کی سخت مخالفت کی گئی اور اسکولوں میں شدید مباحثے ہوئے۔ بائیڈن کے بعد امید ہے کہ اب خاندانی اقدار کی بحالی کو ترجیح دی جائے گی۔
ہم نے ترکیہ کی جینار رپورٹ کے مبصرین میں سے ایک ارسن چلیک اور سوشیولوجیسٹ نوزات چلیک سے ملاقات کی جنہوں نے حال ہی میں ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس وقت وہ اپنے ایک کالم پر کام کر رہے تھے جس کی سوچنے پر مجبور کرنے والی سُرخی انہوں نے ہم سے شیئر کی۔ ’آج سے مرد بچے پیدا نہیں کریں گے‘، یہ ایک جملہ صورتحال کو پوری طرح بیان کرتا ہے۔
پچھلے چار سال میں ترکیہ علاقائی طاقت بننے کے اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹا۔ امریکہ سے کیسے تعلقات ہونے چاہئیں، اس بارے میں بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ امریکی الیکشنز کا صرف امریکہ پر اثر نہیں ہوگا۔ بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں تبدیلی کے دروازے کھلیں گے۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں کہاں، کیا ہونے والا ہے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔