ترک صدر کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسرائیل کے ساتھ 'تعلقات جاری نہیں رکھیں گے۔'
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا کہ ترکیہ نے اسرائیل سے تمام تعلقات ختم کر لیے ہیں۔
رجب طیب اردوان نے یہ اعلان سعودی عرب اور آذربائیجان کے دوروں کے بعد کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کی قیادت میں جمہوریہ ترکیہ کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو جاری نہیں رکھے گی ’اور ہم مستقبل میں بھی اس موقف کو برقرار رکھیں گے۔‘
یاد رہے کہ مئی میں اسرائیل پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے باوجود ترکیہ اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھا۔
اگرچہ ترک حکومت نے گزشتہ سال باضابطہ طور پر اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا تھا، تاہم تل ابیب میں ترک سفارتی مشن کھلے تھے۔
اسی طرح اسرائیل نے علاقائی سلامتی کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ سال انقرہ میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔
ترکیہ کے صدر نے مزید کہا ہے کہ ’ترکیہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو غزہ میں حملوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے گروپس اسے نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔‘
اس سال کے شروع میں ترکیہ نے فلسطین کی حمایت میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کی اور تل ابیب کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کا دفاع کیا تھا۔
ترکیہ اور اسرائیل کے تعلقات گزشتہ سال ستمبر میں نیو یارک میں اردوان اور نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سے تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے بعد (جس کے نتیجے میں 43,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں) انقرہ نے نیتن یاہو کی حکومت پر تنقید تیز کردی تھی۔
اس کے نتیجے میں متعدد اقدامات اٹھائے گئے،جن میں قانونی اقدامات اور تجارتی پابندیاں شامل ہیں۔ ستمبر سے ترکیہ نے اسرائیل کے ساتھ دوسرے ممالک اور فلسطین کے ذریعے تجارت جاری رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے اپوزیشن نے اردوان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس تجارت کو روکنے کے لیے اقدام نہیں اٹھا رہے۔